الادب المفرد - حدیث 65

كِتَابُ بَابُ إِثْمِ قَاطِعِ الرَّحِمِ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الرَّحِمَ شُجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، تَقُولُ: يَا رَبِّ، إِنِّي ظُلِمْتُ، يَا رَبِّ، إِنِّي قُطِعْتُ، يَا رَبِّ، إِنِّي إِنِّي، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ. فَيُجِيبُهَا: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ، وَأَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ؟ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 65

کتاب قطع رحمی کرنے والے کا گناہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بلاشبہ رحم (لفظ)رحمان سے لیا گیا ہے۔ وہ (قیامت کے روز)عرض کرے گا:اے میرے رب! مجھ پر ظلم کیا گیا، اے میرے رب! مجھے توڑا گیا، اے میرے رب! میں، میں، یعنی مجھ پر فلاں فلاں ظلم ہوئے تو اللہ تعالیٰ اسے جواب دے گا:کیا تو اس سے راضی نہیں کہ میں اسے کاٹ دوں جس نے تجھے توڑا اور اسے (اپنے ساتھ)ملاؤں جس نے تجھے جوڑا۔‘‘
تشریح : (۱)رحم، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور لفظ رحم کا اشتقاق لفظ رحمن ہے، یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے خصوصی نسبت ہے۔ رحم کو جب اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا تو اس وقت بھی اس نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی اور روز قیامت بھی اللہ کی عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تیرے ساتھ کیے وعدے کو پورا کروں گا کہ جس نے تجھے توڑا میں اسے اپنے سے توڑ دوں گا۔ (۲) رحم کا یہ کہنا:’’اے میرے رب مجھ پر ظلم ہوا‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ حسی ظلم کے علاوہ معنوی ظلم بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمیں رحم کا وجود نظر نہیں آتا لیکن ہم اس کو اس کا مقام نہ دے کر اس کا حق غصب کر رہے ہیں اور یہی ظلم ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں احساس و ادراک موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔ (۴) اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتی سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ انہی سے باز پرس ہوگی، تاہم دیگر مخلوقات پر ہونے والے ظلم کا مداوا کرکے انہیں ختم کر دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحریم الظلم:۶۵۸۰)یہ اللہ تعالیٰ کے انصاف کی اعلیٰ مثال ہے۔ (۵) انسان کو اللہ تعالیٰ سے جڑنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے ساتھ تعلق ہو تو کوئی دوسرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اگر وہ ناراض ہو تو کوئی دوسرا کچھ نہیں سنوار سکتا۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا ذریعہ صلہ رحمی بتائی گئی ہے اس کو ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
تخریج : حسن:التعلیق الرغیب:۳؍ ۲۲۶۔ وأخرجه احمد في المسند:۲؍ ۴۰۶، ۴۵۵۔ صحیح موارد الظمان:۱۷۰۸۔ (۱)رحم، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور لفظ رحم کا اشتقاق لفظ رحمن ہے، یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے خصوصی نسبت ہے۔ رحم کو جب اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا تو اس وقت بھی اس نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی اور روز قیامت بھی اللہ کی عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تیرے ساتھ کیے وعدے کو پورا کروں گا کہ جس نے تجھے توڑا میں اسے اپنے سے توڑ دوں گا۔ (۲) رحم کا یہ کہنا:’’اے میرے رب مجھ پر ظلم ہوا‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ حسی ظلم کے علاوہ معنوی ظلم بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمیں رحم کا وجود نظر نہیں آتا لیکن ہم اس کو اس کا مقام نہ دے کر اس کا حق غصب کر رہے ہیں اور یہی ظلم ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں احساس و ادراک موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔ (۴) اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتی سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ انہی سے باز پرس ہوگی، تاہم دیگر مخلوقات پر ہونے والے ظلم کا مداوا کرکے انہیں ختم کر دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحریم الظلم:۶۵۸۰)یہ اللہ تعالیٰ کے انصاف کی اعلیٰ مثال ہے۔ (۵) انسان کو اللہ تعالیٰ سے جڑنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے ساتھ تعلق ہو تو کوئی دوسرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اگر وہ ناراض ہو تو کوئی دوسرا کچھ نہیں سنوار سکتا۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا ذریعہ صلہ رحمی بتائی گئی ہے اس کو ضرور اختیار کرنا چاہیے۔