الادب المفرد - حدیث 639

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ جَبْرِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ أُمِّ كُلْثُومِ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي، وَلَهُ حَاجَةٌ، فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: ((يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِجُمَلِ الدُّعَاءِ وَجَوَامِعِهِ)) ، فَلَمَّا انْصَرَفْتُ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا جُمَلُ الدُّعَاءِ وَجَوَامِعُهُ؟ قَالَ: " قُولِي: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ. وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمُ. وَأَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ. وَأَسْأَلُكَ مِمَّا سَأَلَكَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِمَّا تَعَوَّذَ مِنْهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا قَضَيْتَ لِي مِنْ قَضَاءٍ فَاجْعَلْ عَاقِبَتَهُ رُشْدًا "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 639

کتاب باب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کسی کام کی غرض سے تشریف لائے جبکہ میں نماز میں مصروف تھی۔ مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر ہوگئی تو آپ نے فرمایا:’’عائشہ جامع قسم کی دعا کیا کرو۔‘‘ جب میں نے نماز ختم کی تو عرض کیا:اے اللہ کے رسول! جامع قسم کی دعا کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا:’’تم کہو:اے اللہ میں تم سے ہر جلد یا بہ دیر آنے والی بھلائی کا سوال کرتی ہوں۔ جس کو میں جانتی ہوں اور جس کو نہیں جانتی۔ او رمیں تجھ سے دنیا و آخرت کے شر سے پناہ چاہتی ہوں، جس کا مجھے علم ہو اور جس کا علم نہ ہو۔ اور میں تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کی سوالی ہوں۔ اور میں آگ سے تیری پناہ مانگتی اور ہر اس بات اور عمل سے بھی پناہ مانگتی ہوں جو مجھے اس کے قریب کرے۔ اور میں اس چیز کا سوال کرتی ہو جس کا سوال محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور ہر اس چیز سے پناہ مانگتی ہوں جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی اور تونے جو فیصلہ بھی میرے لیے کیا اس کا انجام اچھا کر دے۔‘‘
تشریح : (۱)اس سے مسنون دعاؤں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ ان میں کس قدر عظیم فائدہ ہے کہ تھوڑے وقت اور قلیل الفاظ سے انسان بے پناہ خیر و برکت حاصل کرسکتا ہے۔ (۲) جو لوگ مسنون دعائیں چھوڑ کر خود ساختہ وظائف اور من گھڑت اذکار کے پیچھے دوڑتے ہیں، انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے کا ادراک ہی نہیں۔ ان کی مثال اس پیاسے کی طرح ہے جو مسلسل پیے جاتا ہے لیکن سیراب نہیں ہوتا۔ آپ کے بتائے ہوئے الفاظ جامع مانع ہیں۔ ان کے ساتھ دعا کرنے کا دوہرا فائدہ ہوتا ہے ایک اتباع سنت کا اور دوسرا دعا کا۔ (۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جامع کلمات عطا کیے ہیں کہ ان کے الفاظ تھوڑے اور مفہوم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعاؤں کو یاد کرنا چاہیے اور ان کے ذریعے سے دعا کرنی چاہیے۔ خود ساختہ لمبی چوڑی دعاؤں سے یہ بدرجہا بہتر ہیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه ابن ماجة:۳۸۴۶۔ انظر الصحیحة:۱۵۴۲۔ (۱)اس سے مسنون دعاؤں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ ان میں کس قدر عظیم فائدہ ہے کہ تھوڑے وقت اور قلیل الفاظ سے انسان بے پناہ خیر و برکت حاصل کرسکتا ہے۔ (۲) جو لوگ مسنون دعائیں چھوڑ کر خود ساختہ وظائف اور من گھڑت اذکار کے پیچھے دوڑتے ہیں، انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے کا ادراک ہی نہیں۔ ان کی مثال اس پیاسے کی طرح ہے جو مسلسل پیے جاتا ہے لیکن سیراب نہیں ہوتا۔ آپ کے بتائے ہوئے الفاظ جامع مانع ہیں۔ ان کے ساتھ دعا کرنے کا دوہرا فائدہ ہوتا ہے ایک اتباع سنت کا اور دوسرا دعا کا۔ (۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جامع کلمات عطا کیے ہیں کہ ان کے الفاظ تھوڑے اور مفہوم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعاؤں کو یاد کرنا چاہیے اور ان کے ذریعے سے دعا کرنی چاہیے۔ خود ساختہ لمبی چوڑی دعاؤں سے یہ بدرجہا بہتر ہیں۔