الادب المفرد - حدیث 618

كِتَابُ بَابُ سَيِّدِ الِاسْتِغْفَارِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنِ ابْنِ سُوقَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّ فِي الْمَجْلِسِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((رَبِّ اغْفِرْ لِي، وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ)) مِائَةَ مَرَّةٍ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 618

کتاب سید الاستغفار کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا:ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں شمار کرتے آپ یہ دعا سو مرتبہ پڑھتے:’’رب اغفرلی....‘‘ ’’اے میرے رب مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما، بے شک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا بے حد رحم کرنے والا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)بندے کا استغفار کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے استغفار پر اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے معافي مانگتا رہے۔ (۲) انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اگلی پچھلی خطاؤں کو معاف کر دیا ہے، اس کے باوجود کثرت سے آپ کا استغفار کرنا اظہار عبودیت اور عجز و انکسار کا اعتراف ہے، نیز امت کے لیے اس میں ترغیب ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، کتاب الوتر، باب في الاستغفار:۷۵۱۶۔ والترمذي:۳۴۳۴۔ والنسائي في الکبریٰ:۱۰۲۱۹۔ وابن ماجة:۳۸۱۴۔ انظر الصحیحة:۵۵۶۔ (۱)بندے کا استغفار کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے استغفار پر اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے معافي مانگتا رہے۔ (۲) انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اگلی پچھلی خطاؤں کو معاف کر دیا ہے، اس کے باوجود کثرت سے آپ کا استغفار کرنا اظہار عبودیت اور عجز و انکسار کا اعتراف ہے، نیز امت کے لیے اس میں ترغیب ہے۔