الادب المفرد - حدیث 617

كِتَابُ بَابُ سَيِّدِ الِاسْتِغْفَارِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " سَيِّدُ الِاسْتِغْفَارِ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ. إِذَا قَالَ حِينَ يُمْسِي فَمَاتَ دَخَلَ الْجَنَّةَ - أَوْ: كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ - وَإِذَا قَالَ حِينَ يُصْبِحُ فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ ..... " مِثْلَهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 617

کتاب سید الاستغفار کا بیان حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سید الاستغفار یہ ہے:اللّٰہم أنت ربی....اے اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں۔ تونے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں۔ اور تیرے عہد اور وعدے پر اپنی استطاعت کے مطابق قائم ہوں، تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی معترف ہوں، لہٰذا مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔ میں نے جو گناہ کیے ہیں ان کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ جب شام کے وقت یہ کلمات صدق دل سے کہے اور فوت ہو جائے تو جنت میں داخل ہوگا‘‘ یا فرمایا:وہ اہل جنت میں سے ہوگا۔ اور جب صبح کہے اور اسی دن فوت ہو جائے تو بھی یہی اجر ہے۔‘‘
تشریح : (۱)اللہ تعالیٰ کی توحید اور احکام کا معترف شخص صدق دل سے جب ان کلمات کے ذریعے سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو معاف فرما دیتا ہے کیونکہ ان کلمات میں بندہ اپنی عبدیت، عاجزی اور خطا کار ہونے کا ذکر کرتا ہے اور اقرار بھی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی کے ساتھ ساتھ اپنی التجاؤں کا محور اسی ایک ذات کو باور کراتا ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ نے مغفرت کے لیے چار شرطیں رکھیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَی﴾ ’’میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کو جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل صالح کیا، پھر ہدایت والا راستہ اختیار کیا۔‘‘ گویا ایمان، توبہ، مستقبل میں اچھے عمل اور پھر نیکی والی زندگی چار بنیادی شرطیں ہیں اور سید الاستغفار میں بندہ ان چاروں باتوں کا اقرار کرتا ہے۔ (۳) بعض علماء نے توبہ اور استغفار میں یہ فرق کیا ہے کہ توبہ پہلے کیے پر معافي طلب کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا ہے جبکہ استغفار میں سابقہ گناہ کی بخشش کا سوال ہوتا ہے مستقبل میں نہ کرنے کا عزم اس میں داخل نہیں۔ (فضل الله الصمد، حدیث مذکورہ)
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الدعوات:۶۳۲۳۔ والترمذي:۳۳۹۳۔ والنسائي:۵۵۲۲۔ انظر الصحیحة:۱۷۴۷۔ (۱)اللہ تعالیٰ کی توحید اور احکام کا معترف شخص صدق دل سے جب ان کلمات کے ذریعے سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو معاف فرما دیتا ہے کیونکہ ان کلمات میں بندہ اپنی عبدیت، عاجزی اور خطا کار ہونے کا ذکر کرتا ہے اور اقرار بھی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی کے ساتھ ساتھ اپنی التجاؤں کا محور اسی ایک ذات کو باور کراتا ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ نے مغفرت کے لیے چار شرطیں رکھیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَی﴾ ’’میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کو جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل صالح کیا، پھر ہدایت والا راستہ اختیار کیا۔‘‘ گویا ایمان، توبہ، مستقبل میں اچھے عمل اور پھر نیکی والی زندگی چار بنیادی شرطیں ہیں اور سید الاستغفار میں بندہ ان چاروں باتوں کا اقرار کرتا ہے۔ (۳) بعض علماء نے توبہ اور استغفار میں یہ فرق کیا ہے کہ توبہ پہلے کیے پر معافي طلب کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا ہے جبکہ استغفار میں سابقہ گناہ کی بخشش کا سوال ہوتا ہے مستقبل میں نہ کرنے کا عزم اس میں داخل نہیں۔ (فضل الله الصمد، حدیث مذکورہ)