كِتَابُ بَابُ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي الدُّعَاءِ حَدَّثَنَا خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي "
کتاب
دعا میں ہاتھ اٹھانے کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔‘‘
تشریح :
(۱)اس حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کو یقین کامل سے پکارے اور جس چیز کی دعا کر رہا ہے اس کے ملنے کا یقین رکھے۔ اگر یقین پختہ ہوگا تو حصول مراد بھی یقینی ہو گا ورنہ دعا بے فائدہ ہوگی۔
(۲) اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرح نہیں ہے۔ وہ عرش پر مستوی ہوتے ہوئے نزول بھی فرماتا ہے اور متقین و محسنین کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معیت کے بارے کہنا کہ وہ علم کے لحاظ سے ساتھ ہے۔ یہ کیفیت بیان کرنا ہے جبکہ ہم کیفیت نہیں جانتے۔ اگر معیت کا معنی علم کے لحاظ سے ساتھ ہونا مراد لیا جائے تو یہ معیت اور صفتِ علم ایک چیز ہوئی جبکہ معیت اللہ تعالیٰ کی الگ اور مستقل صفت ہے۔ اس لیے صحیح تر رائے یہ ہے کہ معیت کا معنی ساتھ کیا جائے اور اس کی کیفیت کو اللہ کے سپرد کیا جائے جیسے اللہ کی صفت یَدٌ، عَیْن ساق وغیرہا کو ہم تسلیم کرتے اور اس کی کیفیت بیان نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم کے اعتبار سے ہر جگہ ہے، یعنی عرش پر ہوتے ہوئے اسے ہر چیز کا علم ہے، بندہ جب اور جہاں اسے پکارے وہ اس کی پکار کر سنتا ہے بشرطیکہ قبولیت دعا میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو، مثلاً مال حرام ہو یا نافرمانی کی دعا ہو تو پھر وہ رد کر دی جاتی ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب التوحید:۷۴۰۵۔ نحوه و مسلم:۲۶۷۵۔ والترمذي:۲۳۸۸۔ وابن ماجة:۳۸۲۲۔ انظر الصحیحة:۲۹۴۲۔
(۱)اس حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کو یقین کامل سے پکارے اور جس چیز کی دعا کر رہا ہے اس کے ملنے کا یقین رکھے۔ اگر یقین پختہ ہوگا تو حصول مراد بھی یقینی ہو گا ورنہ دعا بے فائدہ ہوگی۔
(۲) اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرح نہیں ہے۔ وہ عرش پر مستوی ہوتے ہوئے نزول بھی فرماتا ہے اور متقین و محسنین کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معیت کے بارے کہنا کہ وہ علم کے لحاظ سے ساتھ ہے۔ یہ کیفیت بیان کرنا ہے جبکہ ہم کیفیت نہیں جانتے۔ اگر معیت کا معنی علم کے لحاظ سے ساتھ ہونا مراد لیا جائے تو یہ معیت اور صفتِ علم ایک چیز ہوئی جبکہ معیت اللہ تعالیٰ کی الگ اور مستقل صفت ہے۔ اس لیے صحیح تر رائے یہ ہے کہ معیت کا معنی ساتھ کیا جائے اور اس کی کیفیت کو اللہ کے سپرد کیا جائے جیسے اللہ کی صفت یَدٌ، عَیْن ساق وغیرہا کو ہم تسلیم کرتے اور اس کی کیفیت بیان نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم کے اعتبار سے ہر جگہ ہے، یعنی عرش پر ہوتے ہوئے اسے ہر چیز کا علم ہے، بندہ جب اور جہاں اسے پکارے وہ اس کی پکار کر سنتا ہے بشرطیکہ قبولیت دعا میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو، مثلاً مال حرام ہو یا نافرمانی کی دعا ہو تو پھر وہ رد کر دی جاتی ہے۔