الادب المفرد - حدیث 612

كِتَابُ بَابُ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي الدُّعَاءِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَحَطَ الْمَطَرُ عَامًا، فَقَامَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَحَطَ الْمَطَرُ، وَأَجْدَبَتِ الْأَرْضُ، وَهَلَكَ الْمَالُ. فَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَمَا يُرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابَةٍ، فَمَدَّ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ يَسْتَسْقِي اللَّهَ، فَمَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ حَتَّى أَهَمَّ الشَّابُّ الْقَرِيبُ الدَّارِ الرُّجُوعَ إِلَى أَهْلِهِ، فَدَامَتْ جُمُعَةٌ، فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ، وَاحْتَبَسَ الرُّكْبَانُ. فَتَبَسَّمَ لِسُرْعَةِ مَلَالِ ابْنِ آدَمَ وَقَالَ بِيَدِهِ: ((اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا، وَلَا عَلَيْنَا)) ، فَتَكَشَّطَتْ عَنِ الْمَدِينَةِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 612

کتاب دعا میں ہاتھ اٹھانے کا بیان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال بارش رک گئی اور قحط پڑ گیا تو جمعہ والے دن مسلمانوں میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! بارش رک گئی ہے، زمین خشک ہوگئی ہے اور مال مویشی ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے (دوران خطبہ ہی)اپنے ہاتھ اٹھائے، جبکہ اس وقت آسمان پر کوئی بادل دکھائی نہیں دیتا تھا، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو اس قدر اونچا اٹھایا کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ نے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی۔ ابھی ہم نے نماز جمعہ ادا نہیں کی تھی کہ بارش کی وجہ سے قریب گھر والے نوجوان کو گھر جانے کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ پھر یہ بارش اگلے جمعہ تک مسلسل ہوتی رہی۔ اگلا جمعہ آیا تو اس شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول! گھر منہدم ہوگئے، سوار رکے ہوئے ہیں۔ آپ ابن آدم کے جلدی اکتا جانے پر مسکرائے اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا:’’اے اللہ ہمارے آس پاس بارش برسا، ہم پر نہیں۔‘‘ تو مدینہ سے بادل چھٹ گئے۔
تشریح : (۱)اس سے معلوم ہوا کہ دوران خطبہ بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے جائز ہیں، خصوصاً بارش طلب کرنے کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون امر ہے۔ (۲) بارش اگر زیادہ ہو اور نقصان کا باعث بن رہی ہو تو اس کے لیے بھی دعا کی جاسکتی ہے لیکن اس کا ادب یہ ہے کہ بارش رکنے کی دعا کی بجائے یوں دعا کرنی چاہیے کہ باری تعالیٰ جہاں ضرورت ہے اسے وہاں لے جا، ایسا نہیں کہنا چاہیے کہ یا اللہ اسے روک دے کیونکہ رحمت کے روکنے کی التجا حسن ادب کے خلاف ہے۔ اور بارش بالکل روکنے کی دعا سے، اس کے ضرورت مند علاقے بارانِ رحمت سے محروم ہو جائیں گے جو کسی طور پر مناسب نہیں۔ (۳) اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ظاہر ہوا کہ آپ کی دعا سے فوراً بارش شروع ہوگئی اور پھر آپ کی التجا سے فوراً بادل بھی چھٹ گئے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ کسی بزرگ سے دعا کروانا مسنون امر ہے، خصوصاً آفات وغیرہ میں دعا کروائی جاسکتی ہے۔ (۵) جب کوئی دعا کرنے کی درخواست کرے تو اسے فوراً بھی پورا کیا جاسکتا ہے اور تاخیر سے بھی دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه النسائي:کتاب الاستسقاء:۱۵۲۵۔ ومعناه في البخاري:۱۰۱۳۔ ومسلم:۸۹۷۔ وأبي داود:۱۱۷۴۔ والنسائي:۱۵۱۵۔ انظر الإرواء:۲؍ ۱۴۴، ۱۴۵۔ (۱)اس سے معلوم ہوا کہ دوران خطبہ بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے جائز ہیں، خصوصاً بارش طلب کرنے کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون امر ہے۔ (۲) بارش اگر زیادہ ہو اور نقصان کا باعث بن رہی ہو تو اس کے لیے بھی دعا کی جاسکتی ہے لیکن اس کا ادب یہ ہے کہ بارش رکنے کی دعا کی بجائے یوں دعا کرنی چاہیے کہ باری تعالیٰ جہاں ضرورت ہے اسے وہاں لے جا، ایسا نہیں کہنا چاہیے کہ یا اللہ اسے روک دے کیونکہ رحمت کے روکنے کی التجا حسن ادب کے خلاف ہے۔ اور بارش بالکل روکنے کی دعا سے، اس کے ضرورت مند علاقے بارانِ رحمت سے محروم ہو جائیں گے جو کسی طور پر مناسب نہیں۔ (۳) اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ظاہر ہوا کہ آپ کی دعا سے فوراً بارش شروع ہوگئی اور پھر آپ کی التجا سے فوراً بادل بھی چھٹ گئے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ کسی بزرگ سے دعا کروانا مسنون امر ہے، خصوصاً آفات وغیرہ میں دعا کروائی جاسکتی ہے۔ (۵) جب کوئی دعا کرنے کی درخواست کرے تو اسے فوراً بھی پورا کیا جاسکتا ہے اور تاخیر سے بھی دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے۔