كِتَابُ بَابُ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي الدُّعَاءِ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَدِمَ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ دَوْسًا قَدْ عَصَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهَا، فَاسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَظَنَّ النَّاسُ أَنَّهُ يَدْعُو عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: ((اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا، وَائْتِ بِهِمْ))
کتاب
دعا میں ہاتھ اٹھانے کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:اللہ کے رسول! دوس قبیلے والوں نے نافرمانی اور انکار کیا ہے، لہٰذا ان کے خلاف دعا فرمائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے اور ہاتھ اٹھا دیے۔ لوگوں نے سمجھا کہ آپ ان کے لیے بد دعا کرنے لگے ہیں۔ لیکن آپ نے فرمایا:’’اے اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور انہیں ہمارے پاس لے آ۔‘‘
تشریح :
طفیل بن عمرو دوسی اپنے قبیلے کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد واپس گئے اور قوم کو دعوت دی تو انہوں نے انکار کیا۔ دلبرداشتہ ہو کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بد دعا کی درخواست کی۔ آپ نے ان کی ہدایت کی دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الجهاد:۲۹۳۷، ۶۳۹۷۔ وأحمد:۷۳۱۵۔ والحمیدي:۱۰۵۰۔ ومسلم:۲۵۲۴۔ بمعناه۔
طفیل بن عمرو دوسی اپنے قبیلے کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد واپس گئے اور قوم کو دعوت دی تو انہوں نے انکار کیا۔ دلبرداشتہ ہو کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بد دعا کی درخواست کی۔ آپ نے ان کی ہدایت کی دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی۔