الادب المفرد - حدیث 61

كِتَابُ بَابُ بِرِّ الْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْخَزْرَجُ بْنُ عُثْمَانَ أَبُو الْخَطَّابِ السَّعْدِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: جَاءَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَشِيَّةَ الْخَمِيسِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ: أُحَرِّجُ عَلَى كُلِّ قَاطِعِ رَحِمٍ لَمَا قَامَ مِنْ عِنْدِنَا، فَلَمْ يَقُمْ أَحَدٌ حَتَّى قَالَ ثَلَاثًا، فَأَتَى فَتًى عَمَّةً لَهُ قَدْ صَرَمَهَا مُنْذُ سَنَتَيْنِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ لَهُ: يَا ابْنَ أَخِي، مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا، قَالَتِ: ارْجِعْ إِلَيْهِ فَسَلْهُ: لِمَ قَالَ ذَاكَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((إِنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ تُعْرَضُ عَلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَشِيَّةَ كُلِّ خَمِيسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَلَا يَقْبَلُ عَمَلَ قَاطِعِ رَحِمٍ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 61

کتاب حسب مراتب قرابت داروں سے حسن سلوک کرنا ابو ایوب، جن کا نام سلیمان ہے، سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جمعرات کی شام ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا:میں سختی سے کہتا ہوں کہ جو قطع رحمی کرنے والا ہے وہ یہاں سے اٹھ کر چلا جائے تو کوئی بھی نہ اٹھا حتی کہ انہوں نے تین بار یہ بات دہرائی، پھر ایک نوجوان (اٹھا)اور اپنی ایک پھوپھی کے پاس آیا جس سے اس نے دو سال سے قطع تعلقی کر رکھی تھی۔ وہ اس کے پاس آیا تو اس نے کہا:میرے بھتیجے! آپ کے آنے کا کیا سبب ہوا؟ اس نوجوان نے کہا:میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ایسے ایسے کہتے ہوئے سنا ہے۔ اس (پھوپھی)نے کہا:جاؤ اور ان سے پوچھو کہ انہوں نے ایسے کیوں کہا ہے؟ (اس کے پوچھنے پر)انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’بنو آدم کے اعمال ہر شب جمعہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح : (۱)اس سیاق سے پوری مفصل روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف الادب المفرد میں ذکر کیا ہے کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے، تاہم اس کا مرفوع حصہ ’’بنو آدم کے اعمال....صحیح ہے۔ مسند احمد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حسن سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بنو آدم کے اعمال ہر شب جمعہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔ (مسند احمد:۲؍۲۸۴) (۲) بعض روایات میں ہے کہ صبح و شام فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی ہیں اور وہ انسان کے اعمال لے کر جاتے ہیں جبکہ اس روایت میں ہے کہ ہر جمعہ کی شب اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ ان روایات میں بظاہر تضاد ہے۔ اس کی تطبیق یوں ہے کہ اعمال اٹھائے تو ہر روز جاتے ہیں تاہم ہر جمعہ کی شب اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں پیر کے روز کا اضافہ ہے (سنن ابي داؤد، الصوم، حدیث:۲۴۳۶)جس کا مطلب یہ ہے کہ جمعرات کے ساتھ ساتھ پیر کے روز بھی اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ (۳) اس سے قطع رحمی کی سنگینی کا اندازہ بھی بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ اس کا اثر انسان کی تمام نیکیوں پر ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے دوسرے اعمال کی قبولیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ (۴) ایسے دوست بنانے چاہئیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہونا چاہیے جو صلہ رحمی کرنے والے ہوں۔ ایسے لوگوں سے دوستی نہ رکھی جائے جو قطع رحمی کرنے والے ہوں کیونکہ ان کی عادات اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
تخریج : ضعیف:ارواء الغلیل:۹۴۹۔ أخرجه أحمد:۱۰۲۷۲۔ وحسنه سیخنا في آخر قولیه، انظر، صحیح الترغیب:۲۵۳۸۔ (۱)اس سیاق سے پوری مفصل روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف الادب المفرد میں ذکر کیا ہے کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے، تاہم اس کا مرفوع حصہ ’’بنو آدم کے اعمال....صحیح ہے۔ مسند احمد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حسن سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بنو آدم کے اعمال ہر شب جمعہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔ (مسند احمد:۲؍۲۸۴) (۲) بعض روایات میں ہے کہ صبح و شام فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی ہیں اور وہ انسان کے اعمال لے کر جاتے ہیں جبکہ اس روایت میں ہے کہ ہر جمعہ کی شب اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ ان روایات میں بظاہر تضاد ہے۔ اس کی تطبیق یوں ہے کہ اعمال اٹھائے تو ہر روز جاتے ہیں تاہم ہر جمعہ کی شب اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں پیر کے روز کا اضافہ ہے (سنن ابي داؤد، الصوم، حدیث:۲۴۳۶)جس کا مطلب یہ ہے کہ جمعرات کے ساتھ ساتھ پیر کے روز بھی اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ (۳) اس سے قطع رحمی کی سنگینی کا اندازہ بھی بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ اس کا اثر انسان کی تمام نیکیوں پر ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے دوسرے اعمال کی قبولیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ (۴) ایسے دوست بنانے چاہئیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہونا چاہیے جو صلہ رحمی کرنے والے ہوں۔ ایسے لوگوں سے دوستی نہ رکھی جائے جو قطع رحمی کرنے والے ہوں کیونکہ ان کی عادات اثر انداز ہوسکتی ہیں۔