الادب المفرد - حدیث 598

كِتَابُ بَابُ الْحَيَاءِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ، أَوْ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ، شُعْبَةً، أَفْضَلُهَا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 598

کتاب حیا کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایمان کی ساٹھ یا ستر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے کم، تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک اہم شاخ ہے۔‘‘
تشریح : (۱)ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخوں سے کیا مراد ہے اس بارے میں علما کے کئی اقوال ہیں، راجح بات یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کے تمام کام جن کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے، وہ سبھی ایمان کی شاخیں ہیں جن میں سب سے اعلیٰ توحید باری ہے جو تمام شاخوں کی اساس ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو ایمان کی کوئی حیثیت نہیں اور اللہ قبول کرے تو توحید کے اقرار کے بعد ادنیٰ ترین شاخ بھی انسان کی نجات کا باعث بن سکتی ہے۔ جبکہ حیا ایمان کی اہم ترین شاخ ہے جس کی تعلیم سابقہ انبیاء بھی دیتے آئے ہیں۔ (۲) امام نووی رحمہ اللہ نے ابن حبان رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا:میں ایک عرصے تک اس حدیث کے معانی تلاش کرتا رہا۔ بالآخر میں نے قرآن و حدیث میں وارد امور اطاعت کو ملا کر شمار کیا ہے تو وہ ستر سے کچھ زیادہ تھے۔ (شرح صحیح مسلم للنووي، کتاب الإیمان، باب بیان عدد شعب الإیمان، ج:۳۵) (۳) ایسا اخلاق جو انسان کو قبیح حرکات سے بچنے پر ابھارے اور صاحب حق کے حق میں کوتاہی کرنے سے روکے وہ حیا ہے۔ حیا کبھی فطری ہوتی ہے اور یہ کافر میں بھی ہوسکتی ہے اور کبھی خود نیت کے ساتھ احکام شرع کے مطابق پیدا کی جاتی ہے۔ یہی ایمان ہے اور پہلی کیفیت اگر مسلمان میں ہو تو بھی ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الإیمان، باب أمور الایمان:۹۔ ومسلم:۳۵۔ وأبي داود:۴۶۷۶۔ والترمذي:۲۴۱۶۔ والنسائي:۵۰۰۴۔ وابن ماجة:۵۷۔ انظر الصحیحة:۱۷۶۹۔ (۱)ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخوں سے کیا مراد ہے اس بارے میں علما کے کئی اقوال ہیں، راجح بات یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کے تمام کام جن کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے، وہ سبھی ایمان کی شاخیں ہیں جن میں سب سے اعلیٰ توحید باری ہے جو تمام شاخوں کی اساس ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو ایمان کی کوئی حیثیت نہیں اور اللہ قبول کرے تو توحید کے اقرار کے بعد ادنیٰ ترین شاخ بھی انسان کی نجات کا باعث بن سکتی ہے۔ جبکہ حیا ایمان کی اہم ترین شاخ ہے جس کی تعلیم سابقہ انبیاء بھی دیتے آئے ہیں۔ (۲) امام نووی رحمہ اللہ نے ابن حبان رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا:میں ایک عرصے تک اس حدیث کے معانی تلاش کرتا رہا۔ بالآخر میں نے قرآن و حدیث میں وارد امور اطاعت کو ملا کر شمار کیا ہے تو وہ ستر سے کچھ زیادہ تھے۔ (شرح صحیح مسلم للنووي، کتاب الإیمان، باب بیان عدد شعب الإیمان، ج:۳۵) (۳) ایسا اخلاق جو انسان کو قبیح حرکات سے بچنے پر ابھارے اور صاحب حق کے حق میں کوتاہی کرنے سے روکے وہ حیا ہے۔ حیا کبھی فطری ہوتی ہے اور یہ کافر میں بھی ہوسکتی ہے اور کبھی خود نیت کے ساتھ احکام شرع کے مطابق پیدا کی جاتی ہے۔ یہی ایمان ہے اور پہلی کیفیت اگر مسلمان میں ہو تو بھی ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔