الادب المفرد - حدیث 596

كِتَابُ بَابُ مَنْ لَمْ يَقْبَلِ الْهَدِيَّةَ لَمَّا دَخَلَ الْبُغْضُ فِي النَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَهْدَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةً، فَعَوَّضَهُ، فَتَسَخَّطَهُ، فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: ((يَهْدِي أَحَدُهُمْ فَأُعَوِّضُهُ بِقَدْرِ مَا عِنْدِي، ثُمَّ يَسْخَطُهُ وَايْمُ اللَّهِ، لَا أَقْبَلُ بَعْدَ عَامِي هَذَا مِنَ الْعَرَبِ هَدِيَّةً إِلَّا مِنْ قُرَشِيٍّ، أَوْ أَنْصَارِيٍّ، أَوْ ثَقَفِيٍّ، أَوْ دَوْسِيٍّ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 596

کتاب ہدیہ دینے والے سے ناگواری ہو جائے تو ہدیہ قبول نہ کرنا جائز ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:بنو فزارہ کے ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی کا تحفہ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدلے میں تحفہ دیا تو وہ ناراض ہوگیا (کہ یہ کم ہے۔)میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر فرماتے ہوئے سنا:’’لوگ مجھے ہدیہ دیتے ہیں اور میں اپنی استطاعت کے مطابق اس کا بدلہ دیتا ہوں، پھر بھی وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ اللہ کی قسم اس سال کے بعد میں کسی قریشی، انصاری، ثقفي یا دوسی کے سوا عرب میں سے کسی کا ہدیہ قبول نہیں کروں گا۔‘‘
تشریح : (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اگر کوئی آپ کو ہدیہ اور تحفہ پیش کرتا تو اپنی استطاعت کے مطابق اس سے بڑھ کر عطا فرماتے۔ صحابہ کرام آپ کے تھوڑے کو بھی بہت زیادہ سمجھتے، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے: وقَلیل منك لا یقال له قلیل ’’تیرے تھوڑے کو تھوڑا نہیں کہا جاسکتا۔‘‘ مذکورہ بالا جن قبائل کا تذکرہ آپ نے کیا وہ معاوضے کے لالچ کے بغیر سخاوت نفس سے ہدیہ دیتے تھے کہ اگر جواباً نہ بھی ملتا تو آپ کا قبول کر لینا ہی ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ ہوتا۔ (۲) فزاری نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ یہ زیادہ کے حصول کا طلب گار ہے اس لیے آپ نے اسے چھ اونٹنیاں دیں لیکن اس کے باوجود وہ ناراض ہوگیا۔ (سنن الترمذی، حدیث:۳۰۹۱)لوگ بادشاہوں کے حضور نذرانے پیش کرتے اور وہاں سے بے تحاشا مال و صول کرتے تھے کیونکہ ان بادشاہوں کے پاس بھی حلال و حرام کا مال ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اس کے برعکس تھا کہ آپ کے پاس تو جو ذاتی ہوتا وہ بھی ضرورت مند کو دے دیتے۔ اس لیے آپ نے اپنی وسعت کے مطابق خوب بدلہ دیا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی مصلحت کے پیش نظر کسی خاص فرد سے تحائف اور لین دین کا سلسلہ ختم کرسکتا ہے، تاہم اس وجہ سے سلام دعا ترک کرنا ناجائز ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه الترمذي، کتاب المناقب، باب في ثقیف، وبني حنیفة:۳۹۴۶۔ وأبي داود:۳۵۳۷۔ والنسائي:۳۷۵۹۔ مختصراً، انظر الصحیحة:۱۶۸۴۔ (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اگر کوئی آپ کو ہدیہ اور تحفہ پیش کرتا تو اپنی استطاعت کے مطابق اس سے بڑھ کر عطا فرماتے۔ صحابہ کرام آپ کے تھوڑے کو بھی بہت زیادہ سمجھتے، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے: وقَلیل منك لا یقال له قلیل ’’تیرے تھوڑے کو تھوڑا نہیں کہا جاسکتا۔‘‘ مذکورہ بالا جن قبائل کا تذکرہ آپ نے کیا وہ معاوضے کے لالچ کے بغیر سخاوت نفس سے ہدیہ دیتے تھے کہ اگر جواباً نہ بھی ملتا تو آپ کا قبول کر لینا ہی ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ ہوتا۔ (۲) فزاری نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ یہ زیادہ کے حصول کا طلب گار ہے اس لیے آپ نے اسے چھ اونٹنیاں دیں لیکن اس کے باوجود وہ ناراض ہوگیا۔ (سنن الترمذی، حدیث:۳۰۹۱)لوگ بادشاہوں کے حضور نذرانے پیش کرتے اور وہاں سے بے تحاشا مال و صول کرتے تھے کیونکہ ان بادشاہوں کے پاس بھی حلال و حرام کا مال ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اس کے برعکس تھا کہ آپ کے پاس تو جو ذاتی ہوتا وہ بھی ضرورت مند کو دے دیتے۔ اس لیے آپ نے اپنی وسعت کے مطابق خوب بدلہ دیا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی مصلحت کے پیش نظر کسی خاص فرد سے تحائف اور لین دین کا سلسلہ ختم کرسکتا ہے، تاہم اس وجہ سے سلام دعا ترک کرنا ناجائز ہے۔