الادب المفرد - حدیث 592

كِتَابُ بَابُ الْبَغْيِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْكِينُ بْنُ بُكَيْرٍ الْحَذَّاءُ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: يُبْصِرُ أَحَدُكُمُ الْقَذَاةَ فِي عَيْنِ أَخِيهِ، وَيَنْسَى الْجِذْلَ، أَوِ الْجِذْعَ، فِي عَيْنِ نَفْسِهِ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: الْجِذْلُ: الْخَشَبَةُ الْعَالِيَةُ الْكَبِيرَةُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 592

کتاب سرکشی کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکے کو بھی دیکھ لیتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی بھول جاتا ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ جذل کا مطلب بہت بڑی لمبی لکڑی۔
تشریح : (۱)یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیحہ میں اسے مرفوعاً بھی صحیح کہا ہے۔ (الصحیحة للألباني، ح:۳۳) (۲) امام ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضرب المثل بن گئی ہے اس شخص کے لیے جو دوسروں کی معمولی غلطیوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور انہیں عار دلاتا ہے جبکہ خود اس میں موجود بڑے بڑے گناہ بھی اسے نظر نہیں آتے۔ (۳) انسان کو چاہیے کہ اپنا تزکیہ کرے، دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے احوال کی اصلاح کرے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا نہ کرے۔ اصلاح کی غرض سے لوگوں کو سمجھانا اور چیز ہے اور ان کے عیبوں کی ٹوہ میں رہنا اور چیز ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج کل خیر خواہی کا جذبہ کم اور دوسرے کو زچ اور شرمندہ کرنا بنیادی مقصد بن چکا ہے۔
تخریج : صحیح موقوفا۔ الصحیحة ۳۳۔ أخرجه ابن أبي الدنیا في الصمت:۱۹۴۔ وأحمد في الزهد:۹۹۵ موقوفًا، ورواہ ابن المبارك في الزهد:۲۱۲۔ وابن حبان:۵۷۶۱۔ والبیهقي في شعب الإیمان:۶۷۶۱۔ (۱)یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیحہ میں اسے مرفوعاً بھی صحیح کہا ہے۔ (الصحیحة للألباني، ح:۳۳) (۲) امام ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضرب المثل بن گئی ہے اس شخص کے لیے جو دوسروں کی معمولی غلطیوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور انہیں عار دلاتا ہے جبکہ خود اس میں موجود بڑے بڑے گناہ بھی اسے نظر نہیں آتے۔ (۳) انسان کو چاہیے کہ اپنا تزکیہ کرے، دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے احوال کی اصلاح کرے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا نہ کرے۔ اصلاح کی غرض سے لوگوں کو سمجھانا اور چیز ہے اور ان کے عیبوں کی ٹوہ میں رہنا اور چیز ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج کل خیر خواہی کا جذبہ کم اور دوسرے کو زچ اور شرمندہ کرنا بنیادی مقصد بن چکا ہے۔