الادب المفرد - حدیث 590

كِتَابُ بَابُ الْبَغْيِ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْجَنْبِيِّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُسْأَلُ عَنْهُمْ: رَجُلٌ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ وَعَصَى إِمَامَهُ فَمَاتَ عَاصِيًا، فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ، وَأَمَةٌ أَوْ عَبْدٌ أَبِقَ مِنْ سَيِّدِهِ، وَامْرَأَةٌ غَابَ زَوْجُهَا، وَكَفَاهَا مَؤُونَةَ الدُّنْيَا فَتَبَرَّجَتْ وَتَمَرَّجَتْ بَعْدَهُ. وَثَلَاثَةٌ لَا يُسْأَلُ عَنْهُمْ: رَجُلٌ نَازَعَ اللَّهَ رِدَاءَهُ، فَإِنَّ رِدَاءَهُ الْكِبْرِيَاءُ، وَإِزَارَهُ عِزَّهُ، وَرَجُلٌ شَكَّ فِي أَمْرِ اللَّهِ، وَالْقُنُوطُ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 590

کتاب سرکشی کا بیان حضرت فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تین آدمیوں کے بارے میں تو بات ہی نہ کی جائے (کہ وہ کتنے بڑے مجرم ہیں)ایک وہ شخص جس نے مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنے امام کی نافرمانی کی اور اسی طرح نافرمان ہی مرگیا اس کے بارے میں نہ پوچھا جائے (کہ اس کا کیا بنے گا)اسی طرح وہ باندی یا غلام جو اپنے مالک سے بھاگ جائے اور وہ عورت جس کا خاوند کہیں چلا جائے اور وہ اسے دنیاوی ضرورت کا خرچہ بھی دے جائے اور وہ اس کے بعد غیروں کے سامنے بنی سنوری رہے اور ان سے میل جول رکھے۔ مزید تین آدمی بھی ان کی ہلاکت کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت نہیں، وہ آدمی جس نے اللہ تعالیٰ سے اس کی کبریائی کی چادر چھیننے کی کوشش کی اور اس کی ازار اس کی عزت ہے۔ اور جو آدمی اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کرے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔‘‘
تشریح : (۱)امام اور حاکم کی بغاوت اور اس کی نافرمانی اور اہل اسلام سے جداگانہ راستہ درحقیقت سرکشی کا راستہ ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح تکبر و غرور بھی اپنی حدود سے سرکشی کرنا ہے کیونکہ انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے بڑا بنے۔ (۲) باندیوں اور غلاموں کا سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ملازم کا حکم غلاموں والا نہیں ہے، وہ جب چاہیں چھوڑ کر جاسکتے ہیں لیکن ضابطہ اخلاق (طے شدہ معاملے)کی پابندی ضروری ہے تاکہ دوسرے شخص کا نقصان نہ ہو۔ (۳) مرد، عورت کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے۔ اگر اسے کسی تجارتی سفر وغیرہ کے لیے جانا پڑے تو جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی کی ضروریات کا بندوبست کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو مجرم ہے اور عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ اس سے علیحدہ ہو جائے اور خلع لے لے۔ اگر وہ خرچ کا بندوبست کرتا ہے اور عورت اس کی بیوی بن کر ہی رہتی ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے اور غیر مردوں کے سامنے بنی سنوری نہ پھرے کہ خود بھی فتنے کا شکار ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے۔ خاوند کے خرچ پر بن سنور کر غیروں کی تسکین کا سبب بننا ایسی بے وفائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا جرم ہے۔ عورت اگر زیادہ عرصہ شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی تو خلع کا مطالبہ کرے لیکن خاوند کے نکاح میں رہتے ہوئے بے حیائی کا راستہ اختیار کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں۔ (۴) اس روایت میں ان خواتین کے لیے درس عبرت ہے جن کے شوہر بیرون ملک کمانے چلے جاتے ہیں اور وہ صبح و شام ان کے پیسوں پر بازار میں مٹکتی پھرتی ہیں۔ (۵) اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہونا اور اس کی تخلیق کے بارے شک کرنا کہ زمین آسمان یا کائنات کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ یہ از خود وجود میں آگئے ہیں، عذاب الٰہی کا موجب ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی یعقوب علیہ السلام کی بات نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو کہا تھا کہ اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (یوسف:۸۷) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:گمراہوں کے علاوہ اپنے رب کی رحمت سے کون مایوس ہوتا ہے۔ (الحجر:۵۶)
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۲۳۹۴۳۔ والطبراني في الکبیر:۱۸؍ ۳۰۶۔ وابن حبان:۴۵۵۹۔ وانظر الصحیحة:۵۴۲۔ (۱)امام اور حاکم کی بغاوت اور اس کی نافرمانی اور اہل اسلام سے جداگانہ راستہ درحقیقت سرکشی کا راستہ ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح تکبر و غرور بھی اپنی حدود سے سرکشی کرنا ہے کیونکہ انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے بڑا بنے۔ (۲) باندیوں اور غلاموں کا سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ملازم کا حکم غلاموں والا نہیں ہے، وہ جب چاہیں چھوڑ کر جاسکتے ہیں لیکن ضابطہ اخلاق (طے شدہ معاملے)کی پابندی ضروری ہے تاکہ دوسرے شخص کا نقصان نہ ہو۔ (۳) مرد، عورت کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے۔ اگر اسے کسی تجارتی سفر وغیرہ کے لیے جانا پڑے تو جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی کی ضروریات کا بندوبست کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو مجرم ہے اور عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ اس سے علیحدہ ہو جائے اور خلع لے لے۔ اگر وہ خرچ کا بندوبست کرتا ہے اور عورت اس کی بیوی بن کر ہی رہتی ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے اور غیر مردوں کے سامنے بنی سنوری نہ پھرے کہ خود بھی فتنے کا شکار ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے۔ خاوند کے خرچ پر بن سنور کر غیروں کی تسکین کا سبب بننا ایسی بے وفائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا جرم ہے۔ عورت اگر زیادہ عرصہ شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی تو خلع کا مطالبہ کرے لیکن خاوند کے نکاح میں رہتے ہوئے بے حیائی کا راستہ اختیار کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں۔ (۴) اس روایت میں ان خواتین کے لیے درس عبرت ہے جن کے شوہر بیرون ملک کمانے چلے جاتے ہیں اور وہ صبح و شام ان کے پیسوں پر بازار میں مٹکتی پھرتی ہیں۔ (۵) اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہونا اور اس کی تخلیق کے بارے شک کرنا کہ زمین آسمان یا کائنات کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ یہ از خود وجود میں آگئے ہیں، عذاب الٰہی کا موجب ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی یعقوب علیہ السلام کی بات نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو کہا تھا کہ اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (یوسف:۸۷) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:گمراہوں کے علاوہ اپنے رب کی رحمت سے کون مایوس ہوتا ہے۔ (الحجر:۵۶)