كِتَابُ بَابُ التُّؤَدَةِ فِي الْأُمُورِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَشَجِّ أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ: " إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ: الْحِلْمُ وَالْأَنَاةُ "
کتاب
کاموں میں سنجیدگی اختیار کرنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبدالقیس سے فرمایا:’’تیرے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں:حلم و بردباری اور وقار و ٹھہراؤ۔‘‘
تشریح :
(۱)عبدالقیس کا وفد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وفد کے لوگ دوڑتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اشج رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری بٹھائی، کجاوا اتارا اور وقار ومتانت کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی تعریف فرمائی۔
(۲) اشج رضی اللہ عنہ میں یہ خصلتیں پیدائشی تھیں، تاہم یہ محنت سے اپنے اندر پیدا کی جاسکتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((العُجلةُ مِنَ الشَّیْطَانِ))’’جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیهقي:۱۰؍۱۰۴، والصحیحة للالباني، ح:۱۷۹۵)
(۳) جس شخص کے بارے میں خدشہ نہ ہو کہ وہ خود پسندی اور تکبر کا شکار ہو جائے گا اس کی منہ پر تعریف جائز ہے تاکہ وہ اور زیادہ ان کی پابندی کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه مسلم، کتاب الایمان:۲۵، ۱۷۔ والترمذي:۲۰۱۱۔ وابن ماجة:۴۱۸۸۔ انظر المشکاة:۵۰۵۴۔
(۱)عبدالقیس کا وفد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وفد کے لوگ دوڑتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اشج رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری بٹھائی، کجاوا اتارا اور وقار ومتانت کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی تعریف فرمائی۔
(۲) اشج رضی اللہ عنہ میں یہ خصلتیں پیدائشی تھیں، تاہم یہ محنت سے اپنے اندر پیدا کی جاسکتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((العُجلةُ مِنَ الشَّیْطَانِ))’’جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیهقي:۱۰؍۱۰۴، والصحیحة للالباني، ح:۱۷۹۵)
(۳) جس شخص کے بارے میں خدشہ نہ ہو کہ وہ خود پسندی اور تکبر کا شکار ہو جائے گا اس کی منہ پر تعریف جائز ہے تاکہ وہ اور زیادہ ان کی پابندی کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے۔