الادب المفرد - حدیث 58

كِتَابُ بَابُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَهُ أَحَبَّهُ أَهْلُهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مَغْرَاءَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَنِ اتَّقَى رَبَّهُ، وَوَصَلَ رَحِمَهُ، نُسِّئَ فِي أَجَلِهِ، وَثَرَى مَالُهُ، وَأَحَبَّهُ أَهْلُهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 58

کتاب صلہ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنے رب سے ڈرا اور صلہ رحمی کی اس کی موت میں تاخیر کر دی جائے گی، اس کا مال بڑھا دیا جائے گا اور اس کے گھر والے اس سے محبت کریں گے۔
تشریح : (۱)امام بخاری رحمہ اللہ نے باب یہ باندھا ہے کہ صلہ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے جبکہ پیش کردہ روایت میں اہل کی محبت کا ذکر ہے۔ باب سے اس کی مطابقت یہ ہے یہ کام کرنے والا یقینا اللہ کا محبوب ہوتا ہے بشرطیکہ صفت ایمان سے متصف ہو۔ اگر کوئی بدکردار شخص بھی صلہ رحمی کرے تو اسے بھی یہ بدلہ ملتا ہے لیکن اس کو اس کی نیکی کا بدلہ جلد دنیا میں مل جاتا ہے، اللہ کی محبت کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ (۲) سابق الذکر احادیث میں صلہ رحمی کا یہ بدلہ بتایا گیا ہے جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر میں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا بھی ذکر ہے۔ صلہ رحمی اللہ تعالیٰ کے تقویٰ ہی علامت ہے کیونکہ صلہ رحمی اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے بغیر ناممکن ہے۔ یقینا متقی آدمی ہی اخلاص کے ساتھ صلہ رحمی کرے گا اور اپنے کیے گئے احسانات بھی نہیں گنوائے گا۔ (۳) اللہ تعالیٰ کا تقویٰ انسان کو ہر دلعزیز بنا دیتا ہے کیونکہ انسان جب اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو وہ تمام عزیز و اقارب کے حقوق ادا کرتا ہے۔ خاندان والے اگر اس کے حقوق ادا نہ بھی کریں تو تقویٰ اور پرہیزگاری اسے مقابلہ بازی سے روک کر حسن سلوک پر مجبور کرتی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں صلہ رحمی کرنے والا ہوتا ہے۔ انسان جب دوسروں کے حقوق ادا کرے اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے تو خاندان والے ضرور بہ ضرور اس سے محبت کرتے ہیں۔ (۴) تقویٰ، وقایۃ سے ماخوذ ہے، جس میں حفاظت اور بچنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اپنے آپ کو ایسے امور سے بچانا جو آخرت میں نقصان دہ ہیں تقویٰ کہلاتا ہے، نیز جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے انہیں بجا لانا بھی تقوے کے مفہوم میں داخل۔ اردو میںا س کے لیے عموماً پرہیزگاری کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تقوے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو، تاہم اس خوف کے ساتھ تعظیم بھی ہو۔ دنیا میں انسان جس چیز سے ڈرتا ہے اس سے دور بھاگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے انسان جتنا زیادہ ڈرتا ہے اتنا ہی اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا مومنوں کو تقوے کی تلقین فرمائی ہے۔ تقوے کے تین درجات ہیں: ٭ دائمی عذاب سے بچنے کے لیے شرک سے براء ت ٭ ہر وہ کام جس کے کرنے سے انسان گناہگار ہو اسے چھوڑنا اور جس کے نہ کرنے سے گناہگار ہو اسے کرنا۔ ٭ ان چیزوں کو ترک کر دینا جو انسان کو اللہ سے غافل کریں۔ اس میں بسا اوقات مباحات کو ترک کرنا بھی آتا ہے۔ (البیضاوي)
تخریج : حسن:أخرجه ابن أبی شیبۃ:۲۵۳۹۱۔ والمروزي في البر والصلة:۱۹۸۔ والبیهقي في الشعب الایمان:۷۶۰۰۔ الصحیحة:۲۷۶۔ (۱)امام بخاری رحمہ اللہ نے باب یہ باندھا ہے کہ صلہ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے جبکہ پیش کردہ روایت میں اہل کی محبت کا ذکر ہے۔ باب سے اس کی مطابقت یہ ہے یہ کام کرنے والا یقینا اللہ کا محبوب ہوتا ہے بشرطیکہ صفت ایمان سے متصف ہو۔ اگر کوئی بدکردار شخص بھی صلہ رحمی کرے تو اسے بھی یہ بدلہ ملتا ہے لیکن اس کو اس کی نیکی کا بدلہ جلد دنیا میں مل جاتا ہے، اللہ کی محبت کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ (۲) سابق الذکر احادیث میں صلہ رحمی کا یہ بدلہ بتایا گیا ہے جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر میں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا بھی ذکر ہے۔ صلہ رحمی اللہ تعالیٰ کے تقویٰ ہی علامت ہے کیونکہ صلہ رحمی اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے بغیر ناممکن ہے۔ یقینا متقی آدمی ہی اخلاص کے ساتھ صلہ رحمی کرے گا اور اپنے کیے گئے احسانات بھی نہیں گنوائے گا۔ (۳) اللہ تعالیٰ کا تقویٰ انسان کو ہر دلعزیز بنا دیتا ہے کیونکہ انسان جب اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو وہ تمام عزیز و اقارب کے حقوق ادا کرتا ہے۔ خاندان والے اگر اس کے حقوق ادا نہ بھی کریں تو تقویٰ اور پرہیزگاری اسے مقابلہ بازی سے روک کر حسن سلوک پر مجبور کرتی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں صلہ رحمی کرنے والا ہوتا ہے۔ انسان جب دوسروں کے حقوق ادا کرے اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے تو خاندان والے ضرور بہ ضرور اس سے محبت کرتے ہیں۔ (۴) تقویٰ، وقایۃ سے ماخوذ ہے، جس میں حفاظت اور بچنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اپنے آپ کو ایسے امور سے بچانا جو آخرت میں نقصان دہ ہیں تقویٰ کہلاتا ہے، نیز جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے انہیں بجا لانا بھی تقوے کے مفہوم میں داخل۔ اردو میںا س کے لیے عموماً پرہیزگاری کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تقوے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو، تاہم اس خوف کے ساتھ تعظیم بھی ہو۔ دنیا میں انسان جس چیز سے ڈرتا ہے اس سے دور بھاگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے انسان جتنا زیادہ ڈرتا ہے اتنا ہی اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا مومنوں کو تقوے کی تلقین فرمائی ہے۔ تقوے کے تین درجات ہیں: ٭ دائمی عذاب سے بچنے کے لیے شرک سے براء ت ٭ ہر وہ کام جس کے کرنے سے انسان گناہگار ہو اسے چھوڑنا اور جس کے نہ کرنے سے گناہگار ہو اسے کرنا۔ ٭ ان چیزوں کو ترک کر دینا جو انسان کو اللہ سے غافل کریں۔ اس میں بسا اوقات مباحات کو ترک کرنا بھی آتا ہے۔ (البیضاوي)