الادب المفرد - حدیث 57

كِتَابُ بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ تَزِيدُ فِي الْعُمْرِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 57

کتاب صلہ رحمی سے عمر بڑھنے کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی کی جائے اور اس آثار قدم میں تاخیر ہو، یعنی عمر دراز ہو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
تشریح : (۱)ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق میں فراوانی ہو، اسی طرح ہر شخص لمبی عمر کا خواہش مند ہے بلکہ موت کے تذکرے سے گھبراتا ہے لیکن رزق کی وسعت اور درازیٔ عمر کے حقیقی اسباب کی طرف توجہ دینے کے لیے کوئی شخص تیار نہیں۔ اس حدیث میں اس حقیقی سبب صلہ رحمی کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (۲) مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کارآمد بنائے، اس کا ایک طریقہ مخلوق باری تعالیٰ کے ساتھ حسن سلوک ہے، پھر مخلوقات میں سے انسان اپنے عزت و شرف کی بنا پر اس کا زیادہ مستحق ہے اور عام لوگوں میں سے عزیز و اقارب کے ساتھ احسان مندی کا رویہ اختیار کرنا زیادہ باعث اجر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام آدمی کے ساتھ کی گئی نیکی اور بھلائی کو، جس سے وہ خوش ہو جائے، افضل عمل قرار دیا ہے تو عزیز و رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا ثواب کس قدر زیادہ ہوگا۔ (۳) نسب کے علم کو شریعت میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ رشتہ داریوں کو ملایا جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((تَعَلَّمُوْا مِنْ أنْسَابِکُمْ ما تَصِلُوْنَ بِهِ أرْحَامَکُمْ، فَاِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ في الْأهْلِ مَثْرَاةٌ في الْمَالِ مَنْسَأةٌ في الْأثَرِ))(جامع الترمذي، البر والصلة، حدیث:۱۹۷۹) ’’اپنے انساب کے متعلق سیکھو جس کے ساتھ تم اپنی رشتہ داریوں کو ملاؤ، بلاشبہ صلہ رحمی سے خاندان میں محبت پیدا ہوتی ہے مال بڑھتا ہے اور عمر دراز ہوتی ہے۔‘‘
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب من بسط لہ في الرزق لصلۃ الرحم:۵۹۸۵۔ صحیح أبی داؤد:۱۴۸۶۔ (۱)ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق میں فراوانی ہو، اسی طرح ہر شخص لمبی عمر کا خواہش مند ہے بلکہ موت کے تذکرے سے گھبراتا ہے لیکن رزق کی وسعت اور درازیٔ عمر کے حقیقی اسباب کی طرف توجہ دینے کے لیے کوئی شخص تیار نہیں۔ اس حدیث میں اس حقیقی سبب صلہ رحمی کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (۲) مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کارآمد بنائے، اس کا ایک طریقہ مخلوق باری تعالیٰ کے ساتھ حسن سلوک ہے، پھر مخلوقات میں سے انسان اپنے عزت و شرف کی بنا پر اس کا زیادہ مستحق ہے اور عام لوگوں میں سے عزیز و اقارب کے ساتھ احسان مندی کا رویہ اختیار کرنا زیادہ باعث اجر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام آدمی کے ساتھ کی گئی نیکی اور بھلائی کو، جس سے وہ خوش ہو جائے، افضل عمل قرار دیا ہے تو عزیز و رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا ثواب کس قدر زیادہ ہوگا۔ (۳) نسب کے علم کو شریعت میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ رشتہ داریوں کو ملایا جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((تَعَلَّمُوْا مِنْ أنْسَابِکُمْ ما تَصِلُوْنَ بِهِ أرْحَامَکُمْ، فَاِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ في الْأهْلِ مَثْرَاةٌ في الْمَالِ مَنْسَأةٌ في الْأثَرِ))(جامع الترمذي، البر والصلة، حدیث:۱۹۷۹) ’’اپنے انساب کے متعلق سیکھو جس کے ساتھ تم اپنی رشتہ داریوں کو ملاؤ، بلاشبہ صلہ رحمی سے خاندان میں محبت پیدا ہوتی ہے مال بڑھتا ہے اور عمر دراز ہوتی ہے۔‘‘