الادب المفرد - حدیث 56

كِتَابُ بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ تَزِيدُ فِي الْعُمْرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي عَقِيلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 56

کتاب صلہ رحمی سے عمر بڑھنے کا بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور عمر میں اضافہ ہو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
تشریح : (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں انسانیت کی بقا کا نسخہ تجویز فرمایا ہے، اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کا ذکر جمیل دیر تک رہے اور دنیا کی زندگی بھی آسائش سے گزرے تو اسے صلہ رحمی ضرور کرنی چاہیے۔ (۲) عزیز و اقارب کے باہمی تعلقات کی خرابی کی عموماً دو وجوہات ہوتی ہیں:مال و دولت، اولاد، لوگ مال و دولت کی خاطر عموماً رشتہ داروں سے بگڑ جاتے ہیں بلکہ نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت زیادہ ہو اور وہ پر آسائش زندگی بسر کرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تو یہ بتایا کہ کثرت سے آسائش نہیں آتی جب تک اس میں برکت نہ ہو اور دوسرا یہ کہ اگر تم چاہتے ہو کہ آسائش میں رہو تو اس کا حل یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے جذبات کی قربانی دے کر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (۳) اس حدیث میں اسباب رزق تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (۴) اس حدیث پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ عمر تو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرر ہے اور انسان کا رزق بھی لکھ دیا گیا ہے تو پھر اس حدیث میں عمر بڑھنے اور کم ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ انسان کی عمر کو اسباب سے معلق کر دیا گیا ہے کہ اگر یہ صلہ رحمی کرے گا تو اسے اتنی عمر ملے گی اور اگر قطع رحمی کرے گا تو اتنی۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلیٰ علم کی بنا پر لکھ دیا ہے کہ یہ صلہ رحمی کرے گا یا نہیں۔ اب انسان کو چاہیے کہ ان اسباب کو بروئے کار لائے، تقدیر کا سہارا لے کر اسباب سے روگردانی نہ کرے، مثلاً کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو بیماری کو دور کرنے کے اسباب تلاش کرتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ اب اگر وہ یہ کہے کہ جتنی عمر مقدر میں ہے مل جائے گی دوائی لے کر کیا کرنا ہے تو یہ تعلیمات شریعت کی مخالفت ہے۔ ایک روز تقدیر کا مسئلہ چلا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ہم سعادت مند ہیں یا بدبخت، یہ تو پہلے لکھا جاچکا ہے پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِعْمَلُوْا فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهٗ فَمَنْ کَانَ من أهْلِ السَّعَادَۃِ فَسَیُـیَسَّرُ لِعَمَلِ أهْلِ السَّعَادَۃِ وَمَنْ کَانَ مِنْ أهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَیُـیَسَّرُ لِعَمَلِ أهْلِ الشَّقَاوَةِ))(صحیح مسلم، القدر، حدیث:۲۶۴۷) ’’تم عمل کرتے رہو، ہر ایک کو اس کی قسمت کے مطابق عمل کی توفیق ہوگی۔ جو سعادت مند ہے، اسے سعادت مندی کے امور میں آسانی ہوگی اور جو بدبخت ہے، اسے بدبختی کے کاموں میں آسانی ہوگی۔‘‘ جن احادیث میں لمبی عمر کی دعا کرنے کا ذکر ہے، ان سے بھی اس حدیث کی تائید ہوتی ہے۔ (۵) رزق اور عمر کا حقیقی طور پر بڑھنا ممکن ہے اس لیے خیر و برکت کے ساتھ اس کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم حقیقی معنی کے ساتھ ساتھ خیر و برکت کا مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب من بسط لہ في الرزق لصلۃ الرحم:۵۹۸۶، ۲۰۶۷۔ ومسلم:۲۵۵۷۔ وأبي داود:۱۶۹۳۔ (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں انسانیت کی بقا کا نسخہ تجویز فرمایا ہے، اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کا ذکر جمیل دیر تک رہے اور دنیا کی زندگی بھی آسائش سے گزرے تو اسے صلہ رحمی ضرور کرنی چاہیے۔ (۲) عزیز و اقارب کے باہمی تعلقات کی خرابی کی عموماً دو وجوہات ہوتی ہیں:مال و دولت، اولاد، لوگ مال و دولت کی خاطر عموماً رشتہ داروں سے بگڑ جاتے ہیں بلکہ نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت زیادہ ہو اور وہ پر آسائش زندگی بسر کرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تو یہ بتایا کہ کثرت سے آسائش نہیں آتی جب تک اس میں برکت نہ ہو اور دوسرا یہ کہ اگر تم چاہتے ہو کہ آسائش میں رہو تو اس کا حل یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے جذبات کی قربانی دے کر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (۳) اس حدیث میں اسباب رزق تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (۴) اس حدیث پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ عمر تو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرر ہے اور انسان کا رزق بھی لکھ دیا گیا ہے تو پھر اس حدیث میں عمر بڑھنے اور کم ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ انسان کی عمر کو اسباب سے معلق کر دیا گیا ہے کہ اگر یہ صلہ رحمی کرے گا تو اسے اتنی عمر ملے گی اور اگر قطع رحمی کرے گا تو اتنی۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلیٰ علم کی بنا پر لکھ دیا ہے کہ یہ صلہ رحمی کرے گا یا نہیں۔ اب انسان کو چاہیے کہ ان اسباب کو بروئے کار لائے، تقدیر کا سہارا لے کر اسباب سے روگردانی نہ کرے، مثلاً کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو بیماری کو دور کرنے کے اسباب تلاش کرتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ اب اگر وہ یہ کہے کہ جتنی عمر مقدر میں ہے مل جائے گی دوائی لے کر کیا کرنا ہے تو یہ تعلیمات شریعت کی مخالفت ہے۔ ایک روز تقدیر کا مسئلہ چلا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ہم سعادت مند ہیں یا بدبخت، یہ تو پہلے لکھا جاچکا ہے پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِعْمَلُوْا فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهٗ فَمَنْ کَانَ من أهْلِ السَّعَادَۃِ فَسَیُـیَسَّرُ لِعَمَلِ أهْلِ السَّعَادَۃِ وَمَنْ کَانَ مِنْ أهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَیُـیَسَّرُ لِعَمَلِ أهْلِ الشَّقَاوَةِ))(صحیح مسلم، القدر، حدیث:۲۶۴۷) ’’تم عمل کرتے رہو، ہر ایک کو اس کی قسمت کے مطابق عمل کی توفیق ہوگی۔ جو سعادت مند ہے، اسے سعادت مندی کے امور میں آسانی ہوگی اور جو بدبخت ہے، اسے بدبختی کے کاموں میں آسانی ہوگی۔‘‘ جن احادیث میں لمبی عمر کی دعا کرنے کا ذکر ہے، ان سے بھی اس حدیث کی تائید ہوتی ہے۔ (۵) رزق اور عمر کا حقیقی طور پر بڑھنا ممکن ہے اس لیے خیر و برکت کے ساتھ اس کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم حقیقی معنی کے ساتھ ساتھ خیر و برکت کا مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے۔