الادب المفرد - حدیث 559

كِتَابُ بَابُ مَنِ انْتَصَرَ مِنْ ظُلْمِهِ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي مِرْطِهَا، فَأَذِنَ لَهَا فَدَخَلَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَ: ((أَيْ بُنَيَّةُ، أَتُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ؟)) قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: ((فَأَحِبِّي هَذِهِ)) ، فَقَامَتْ فَخَرَجَتْ فَحَدَّثَتْهُمْ، فَقُلْنَ: مَا أَغْنَيْتِ عَنَّا شَيْئًا فَارْجِعِي إِلَيْهِ، قَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا. فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، وَوَقَعَتْ فِيَّ زَيْنَبُ تَسُبُّنِي، فَطَفِقْتُ أَنْظُرُ: هَلْ يَأْذَنُ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَزَلْ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ، فَوَقَعْتُ بِزَيْنَبَ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ أَثْخَنْتُهَا غَلَبَةً، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَا إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 559

کتاب اس آدمی کا بیان جس نے اپنی مظلومیت کا انتقام لیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی تو آپ نے اندر آنے کی اجازت دی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی چادر میں استراحت فرما تھے۔ سیدہ فاطمہ اندر داخل ہوئیں تو انہوں نے کہا:بلاشبہ آپ کی بیویوں نے مجھے بھیجا ہے، وہ آپ سے بنت ابی قحافہ کے بارے میں عدل کرنے کا سوال کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’پیاری بیٹی کیا تم اس سے محبت کرتی ہو جس سے میں محبت کرتا ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا:کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’پھر اس، یعنی عائشہ سے محبت کرو۔‘‘ وہ اٹھیں اور جاکر ساری بات بتا دی۔ انہوں نے کہا:آپ نے تو ہمارا کام نہیں کیا، لہٰذا دوبارہ جائیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:اللہ کی قسم میں ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ پھر انہوں نے ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو بھیجا۔ انہوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے اجازت دے دی۔ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی بات کی اور ساتھ ہی مجھے بھی زینب رضی اللہ عنہا نے برا بھلا کہا۔ میں چپ سادھ کر دیکھتی رہی کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیتے ہیں۔ میں مسلسل خاموش رہی حتی کہ میں سمجھ گئی کہ اب اگر میں نے بدلہ لیا تو آپ ناپسند نہیں کریں گے۔ پھر میں نے بھی زینب کو برا بھلا کہا اور انہیں لمحوں میں خاموش کرا دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ صورت حال دیکھ کر مسکرائے، پھر فرمایا:’’کیوں! یہ بھی ابوبکر کی بیٹی ہے۔‘‘
تشریح : (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ مظلوم اپنا بدلہ لے سکتا ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بھی پتہ چلا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کا کیا مقام و مرتبہ تھا۔ ان پر طعن کرنے والوں کو اپنے ایمان کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ (۲) امہات المومنین سمجھتی تھیں کہ ہماری نجی زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے عدل نہیں کرتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ حقیقت حال یہ تھی کہ جن چیزوں، مثلاً باری مقرر کرنا، خرچ دینا وغیرہ میں آپ مکمل انصاف کرتے تھے، محبت کیونکہ اختیاری چیز نہیں تھی اس لیے آپ نے ان کے اعتراض کو کوئی اہمیت نہ دی۔ (۳) سوکنوں کا باہم الجھنا فطری غیرت کی بنا پر ہے اس لیے سیدہ عائشہ اور زینب رضی اللہ عنہما کی نوک جھوک ان کے ایمان پر اثر انداز نہیں ہوتی اور نہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہی ہے بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا جھگڑا ہے۔ (۴) اس جھگڑے کا سبب یہ تھا کہ جس دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ہوتی تو لوگ تحائف زیادہ بھیجتے۔ امہات المومنین نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ لوگوں سے کہیں کہ وہ سب بیویوں کے ہاں برابر تحائف بھیجیں تو آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ جس کے لیے بعد ازاں سیدہ فاطمہ کو اور پھر زینب رضی اللہ عنہا کو بھیجا گیا۔ (۵) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس سے جتنی محبت تھی اس اعتبار سے ہمیں بھی محبت کرنی چاہیے۔ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں اور اپنی لخت جگر کو بھی اس سے محبت کا حکم دیں اس سے بغض رکھنے والا اہل بیت کا محب کیسے ہوسکتا ہے!
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب فضائل الصحابة:۲۴۴۲۔ البخاري:۲۵۸۱۔ والنسائي:۳۹۴۴۔ (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ مظلوم اپنا بدلہ لے سکتا ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بھی پتہ چلا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کا کیا مقام و مرتبہ تھا۔ ان پر طعن کرنے والوں کو اپنے ایمان کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ (۲) امہات المومنین سمجھتی تھیں کہ ہماری نجی زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے عدل نہیں کرتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ حقیقت حال یہ تھی کہ جن چیزوں، مثلاً باری مقرر کرنا، خرچ دینا وغیرہ میں آپ مکمل انصاف کرتے تھے، محبت کیونکہ اختیاری چیز نہیں تھی اس لیے آپ نے ان کے اعتراض کو کوئی اہمیت نہ دی۔ (۳) سوکنوں کا باہم الجھنا فطری غیرت کی بنا پر ہے اس لیے سیدہ عائشہ اور زینب رضی اللہ عنہما کی نوک جھوک ان کے ایمان پر اثر انداز نہیں ہوتی اور نہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہی ہے بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا جھگڑا ہے۔ (۴) اس جھگڑے کا سبب یہ تھا کہ جس دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ہوتی تو لوگ تحائف زیادہ بھیجتے۔ امہات المومنین نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ لوگوں سے کہیں کہ وہ سب بیویوں کے ہاں برابر تحائف بھیجیں تو آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ جس کے لیے بعد ازاں سیدہ فاطمہ کو اور پھر زینب رضی اللہ عنہا کو بھیجا گیا۔ (۵) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس سے جتنی محبت تھی اس اعتبار سے ہمیں بھی محبت کرنی چاہیے۔ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں اور اپنی لخت جگر کو بھی اس سے محبت کا حکم دیں اس سے بغض رکھنے والا اہل بیت کا محب کیسے ہوسکتا ہے!