الادب المفرد - حدیث 555

كِتَابُ بَابُ الْكِبْرِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: لَمْ يَكُنْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَحَزِّقِينَ، وَلَا مُتَمَاوِتِينَ، وَكَانُوا يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ فِي مَجَالِسِهِمْ، وَيَذْكُرُونَ أَمْرَ جَاهِلِيَّتِهِمْ، فَإِذَا أُرِيدَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَلَى شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ، دَارَتْ حَمَالِيقُ عَيْنَيْهِ كَأَنَّهُ مَجْنُونٌ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 555

کتاب تکبر کا بیان حضرت سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام مریل اور مردہ دل نہیں تھے۔ وہ اپنی مجلسوں میں اشعار بھی پڑھا کرتے تھے اور جاہلیت کے زمانہ کے واقعات کا تذکرہ بھی کرتے لیکن جب ان سے اللہ کے دین کے خلاف کوئی بات کہی جاتی تو ان کی آنکھوں کے ڈھیلے گھومنے لگتے گویا کہ وہ مجنوں ہے۔
تشریح : (۱)مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بناوٹی تقوی نہیں تھا۔ اور نہ ہی وہ ہر وقت مریل شکل بنائے رکھتے تھے کہ گویا ان پر فکر آخرت سوار ہے۔ بلکہ وہ زندہ دل تھے۔ اکٹھے رہتے اور مجلسیں بھی جمتیں۔ زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی زیر بحث آتیں اور شعر و شاعری بھی ہوتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر اخلاقی یا دین کے مخالف کوئی گفتگو کرتے بلکہ دینی غیرت کا اور تقوے کا حال یہ تھا کہ اگر خلاف شرع کوئی بات کر دیتا یا دین کا مذاق اڑانا چاہتا تو یک دم ان کی کیفیت بدل جاتی اور آنکھیں اس قدر سرخ ہو جاتیں گویا کوئی دیوانگی در آئی ہو۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ خود ساختہ تقوی اپنے اوپر سوار کیے رکھنا اور بات چیت نہ کرنا اور خود کو بہت نیک ظاہر کرنا جب کہ باطن ایسا نہ ہو، یہ بھی تکبر کی ایک قسم ہے۔
تخریج : حسن:أخرجه ابن أبي الدنیا في منازل الأشراف:۱۸۶۔ واحمد في الزهد:۱۲۰۰۔ وابن ابي شیبة:۲۶۰۵۸۔ انظر الصحیحة:۴۳۴۔ (۱)مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بناوٹی تقوی نہیں تھا۔ اور نہ ہی وہ ہر وقت مریل شکل بنائے رکھتے تھے کہ گویا ان پر فکر آخرت سوار ہے۔ بلکہ وہ زندہ دل تھے۔ اکٹھے رہتے اور مجلسیں بھی جمتیں۔ زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی زیر بحث آتیں اور شعر و شاعری بھی ہوتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر اخلاقی یا دین کے مخالف کوئی گفتگو کرتے بلکہ دینی غیرت کا اور تقوے کا حال یہ تھا کہ اگر خلاف شرع کوئی بات کر دیتا یا دین کا مذاق اڑانا چاہتا تو یک دم ان کی کیفیت بدل جاتی اور آنکھیں اس قدر سرخ ہو جاتیں گویا کوئی دیوانگی در آئی ہو۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ خود ساختہ تقوی اپنے اوپر سوار کیے رکھنا اور بات چیت نہ کرنا اور خود کو بہت نیک ظاہر کرنا جب کہ باطن ایسا نہ ہو، یہ بھی تکبر کی ایک قسم ہے۔