الادب المفرد - حدیث 53

كِتَابُ بَابُ فَضْلِ صِلَةِ الرَّحِمِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا الرَّدَّادِ اللَّيْثِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا الرَّحْمَنُ، وَأَنَا خَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَاشْتَقَقْتُ لَهَا مِنَ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 53

کتاب صلہ رحمی کی فضیلت حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ عزوجل کا فرمان ہے: میں رحمان ہوں اور میں ہی نے رحم کو پیدا کیا ہے اور میں نے اپنے نام (رحمن)کی نسبت سے اس کو رحم کا نام دیا ہے، لہٰذا جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا میں اس کو توڑوں گا۔‘‘
تشریح : (۱)یہ حدیث قدسی ہے، حدیث کی صورت میں جو بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے بیان کریں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ اس کے الفاظ بھی اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں۔ دیگر احادیث کا مفہوم تو اللہ تعالیٰ کا القا کردہ ہوتا ہے لیکن الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں۔ قرآن اور حدیث قدسی میں فرق یہ ہے کہ قرآن کے نزول کا ذریعہ وحی جلی ہے جبکہ حدیث قدسی میں ایسا نہیں ہے۔ (۲) اس سے صلہ رحمی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص اس کے حقوق کا خیال رکھے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے نوازے گا اور اسے پورا پورا ثواب دے گا، قطع رحمی کرنے والا شخص رحمت باری سے محروم ہو جائے گا۔ (۳) انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن خود دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا نہیں سوچتا۔ اسلام نے خود غرضی کی اس فکر کو ختم کیا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان دنیاوی مفادات سے بالاتر ہو کر سب سے بڑے اخروی فائدے کے لیے قربانی دیں۔ نظام دنیا تبھی درست چلے گا۔ کائنات کی بقا اسی میں ہے کہ ایک زیادتی کرے تو دوسرا برداشت اور صبر کا مظاہرہ کرے۔ ورنہ اگر ہر ایک اپنے حقوق کے نام پر کھینچا تانی کرے گا تو بہت جلد یہ نظام بگڑ جائے گا۔ عام لوگوں کی نسبت رشتہ داروں سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے، اس لیے بگاڑ اور قطع تعلقی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ شریعت نے انہی خطرات کے پیش نظر اس بارے میں زیادہ محتاط رہنے کا حکم دیا ہے۔ عظم الجزاء مع عظم البلاء (جتنی آزمائش زیادہ ہوگی اجر بھی اسی قدر زیادہ ہوگا)کے قاعدے کے مطابق اس کا اجر بھی بہت زیادہ رکھا ہے، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم۔
تخریج : صحیح: أخرجه أبي داود، الزکاة، باب فی صلة الرحم: ۱۶۹۴۔ والترمذي: ۱۹۰۷۔ الصحیحة: ۵۲۰۔ (۱)یہ حدیث قدسی ہے، حدیث کی صورت میں جو بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے بیان کریں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ اس کے الفاظ بھی اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں۔ دیگر احادیث کا مفہوم تو اللہ تعالیٰ کا القا کردہ ہوتا ہے لیکن الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں۔ قرآن اور حدیث قدسی میں فرق یہ ہے کہ قرآن کے نزول کا ذریعہ وحی جلی ہے جبکہ حدیث قدسی میں ایسا نہیں ہے۔ (۲) اس سے صلہ رحمی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص اس کے حقوق کا خیال رکھے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے نوازے گا اور اسے پورا پورا ثواب دے گا، قطع رحمی کرنے والا شخص رحمت باری سے محروم ہو جائے گا۔ (۳) انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن خود دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا نہیں سوچتا۔ اسلام نے خود غرضی کی اس فکر کو ختم کیا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان دنیاوی مفادات سے بالاتر ہو کر سب سے بڑے اخروی فائدے کے لیے قربانی دیں۔ نظام دنیا تبھی درست چلے گا۔ کائنات کی بقا اسی میں ہے کہ ایک زیادتی کرے تو دوسرا برداشت اور صبر کا مظاہرہ کرے۔ ورنہ اگر ہر ایک اپنے حقوق کے نام پر کھینچا تانی کرے گا تو بہت جلد یہ نظام بگڑ جائے گا۔ عام لوگوں کی نسبت رشتہ داروں سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے، اس لیے بگاڑ اور قطع تعلقی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ شریعت نے انہی خطرات کے پیش نظر اس بارے میں زیادہ محتاط رہنے کا حکم دیا ہے۔ عظم الجزاء مع عظم البلاء (جتنی آزمائش زیادہ ہوگی اجر بھی اسی قدر زیادہ ہوگا)کے قاعدے کے مطابق اس کا اجر بھی بہت زیادہ رکھا ہے، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم۔