الادب المفرد - حدیث 524

كِتَابُ بَابُ عِيَادَةِ الْمُشْرِكِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ غُلَامًا مِنَ الْيَهُودِ كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ: ((أَسْلِمْ)) ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ، وَهُوَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: ((الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 524

کتاب مشرک کی تیمار داری کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تیمار داری کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر فرمایا:’’اسلام قبول کرلو۔‘‘ اس لڑکے نے یہ سن کر سرہانے کھڑے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا:ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو، چنانچہ وہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے باہر تشریف لائے تو فرما رہے تھے:’’ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے ہے جس نے اسے آگ سے بچا لیا۔‘‘
تشریح : (۱)اس سے معلوم ہوا کہ مشرک اور کافر کی تیمار داری بھی جائز ہے لیکن اس کا مقصد باہم الفت و محبت نہ ہو بلکہ مقصد یہ ہو کہ شاید یہ مسلمان ہو جائے اور اس کے لیے اسے دعوت بھی دی جائے۔ (۲) یہ پیغمبرانہ درد اور تڑپ کہ ’’لوگ مسلمان ہو جائیں‘‘ اسلام کے داعی کے اندر ہونی چاہیے کہ انسان لوگوں کا ہمدرد اور ان کی خیر خواہی کرنے والا ہو۔ (۳) کافر کی تیمار داری کرتے وقت سابقہ احادیث میں مذکور دعا:لَا بأس طہورٌ۔ نہیں پڑھنی چاہیے کیونکہ بیماری صرف مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (۴) کافر سے خدمت لینا جائز ہے، اسی طرح اسے نوکر بھی رکھا جاسکتا ہے۔ اگر وہ برتنوں کو ہاتھ لگا دیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات:۱۳۵۶، ۵۶۵۷۔ وأبي داود:۳۰۹۵۔ (۱)اس سے معلوم ہوا کہ مشرک اور کافر کی تیمار داری بھی جائز ہے لیکن اس کا مقصد باہم الفت و محبت نہ ہو بلکہ مقصد یہ ہو کہ شاید یہ مسلمان ہو جائے اور اس کے لیے اسے دعوت بھی دی جائے۔ (۲) یہ پیغمبرانہ درد اور تڑپ کہ ’’لوگ مسلمان ہو جائیں‘‘ اسلام کے داعی کے اندر ہونی چاہیے کہ انسان لوگوں کا ہمدرد اور ان کی خیر خواہی کرنے والا ہو۔ (۳) کافر کی تیمار داری کرتے وقت سابقہ احادیث میں مذکور دعا:لَا بأس طہورٌ۔ نہیں پڑھنی چاہیے کیونکہ بیماری صرف مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (۴) کافر سے خدمت لینا جائز ہے، اسی طرح اسے نوکر بھی رکھا جاسکتا ہے۔ اگر وہ برتنوں کو ہاتھ لگا دیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔