الادب المفرد - حدیث 520

كِتَابُ بَابُ دُعَاءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ بِالشِّفَاءِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنِي ثَلَاثَةٌ مِنْ بَنِي سَعْدٍ كُلُّهُمْ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى سَعْدٍ يَعُودُهُ بِمَكَّةَ، فَبَكَى، فَقَالَ: ((مَا يُبْكِيكَ؟)) ، قَالَ: خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدٌ، قَالَ: ((اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا)) ثَلَاثًا، فَقَالَ: لِي مَالٌ كَثِيرٌ، يَرِثُنِي ابْنَتَيْ، أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: ((لَا)) ، قَالَ: فَبِالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: ((لَا)) ، قَالَ: فَالنِّصْفُ؟ قَالَ: ((لَا)) ، قَالَ: فَالثُّلُثُ؟ قَالَ: " الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّ صَدَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ صَدَقَةٌ، وَنَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ صَدَقَةٌ، وَمَا تَأْكُلُ امْرَأَتُكَ مِنْ طَعَامِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّكَ أَنْ تَدَعَ أَهْلَكَ بِخَيْرٍ - أَوْ قَالَ: بِعَيْشٍ - خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ "، وَقَالَ بِيَدِهِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 520

کتاب عیادت کرنے والے کا مریض کے لیے شفایابی کی دعا کرنا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں سے روایت ہے کہ مکہ مکرمہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو وہ رو پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم کیوں روتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا:مجھے ڈر ہے کہ میں اس زمین میں فوت ہو جاؤں گا جہاں سے ہجرت کی تھی جیسا کہ سعد بن خولہ فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:’’اے اللہ سعد کو شفا عطا فرما۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ دعا کی۔ انہوں نے کہا:میرے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے اور میری وارث صرف میری بیٹی ہے۔ کیا میں اپنے تمام مال کے بارے میں في سبیل اللہ وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:دو تہائی کی؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا:آدھے مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا:ایک تہائی کی کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا:تیسرے حصے کی کرلو ویسے تیسرے حصے کی بھی ہے زیادہ۔ تیرا مال میں سے صدقہ کرنا بھی صدقہ ہے اور تیرا اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے اور جو تیری بیوی تیرا کھانا کھائے وہ بھی تیرے حق میں صدقہ ہے اور تم اپنے اہل و عیال کو خوش حال چھوڑ کر دنیا سے جاؤ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔
تشریح : (۱)جس سر زمین کو انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑے وہاں دوبارہ مستقل سکونت اختیار کرنا ناپسندیدہ امر ہے۔ اس لیے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مکہ میں فوت ہونا ناپسند کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے لیے صحت یابی کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی۔ بعدازاں سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں نرینہ اولاد بھی ہوئی۔ (۲) زندگی میں انسان اعتدال کے ساتھ جتنا مرضی مال چاہے اللہ کی راہ میں دے سکتا ہے بشرطیکہ کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تاہم مرتے وقت زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ (۳) اس روایت سے معلوم ہوا کہ انسان کو زندگی بھر محنت کرتے رہنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے کیونکہ وہ خوشحالی کی زندگی گزاریں گے اور صدقہ و خیرات کریں گے تو اسے فائدہ ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کو دنیا ہی کی ہوس لگ جائے اور اپنی عاقبت کے لیے کچھ نہ کرے۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب الوصیة، باب الوصیة بالثلث:۱۶۲۸۔ وانظر الحدیث:۴۹۹۔ (۱)جس سر زمین کو انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑے وہاں دوبارہ مستقل سکونت اختیار کرنا ناپسندیدہ امر ہے۔ اس لیے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مکہ میں فوت ہونا ناپسند کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے لیے صحت یابی کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی۔ بعدازاں سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں نرینہ اولاد بھی ہوئی۔ (۲) زندگی میں انسان اعتدال کے ساتھ جتنا مرضی مال چاہے اللہ کی راہ میں دے سکتا ہے بشرطیکہ کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تاہم مرتے وقت زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ (۳) اس روایت سے معلوم ہوا کہ انسان کو زندگی بھر محنت کرتے رہنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے کیونکہ وہ خوشحالی کی زندگی گزاریں گے اور صدقہ و خیرات کریں گے تو اسے فائدہ ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کو دنیا ہی کی ہوس لگ جائے اور اپنی عاقبت کے لیے کچھ نہ کرے۔