كِتَابُ بَابُ فَضْلِ صِلَةِ الرَّحِمِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونَ، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ، وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ، قَالَ: ((لَئِنْ كَانَ كَمَا تَقُولُ كَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ، وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ))
کتاب
صلہ رحمی کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے کچھ عزیز ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں جبکہ وہ قطع تعلقی کرتے ہیں، میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے جاہلانہ طرز اختیار کرتے ہیں تو بھی میں تحمل اور بردباری سے کام لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی باتیں سن کر)فرمایا: ’’اگر واقعی ایسے ہے جیسے تو کہہ رہا ہے تو تو ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے، یعنی وہ خود ذلیل ہوں گے اور جب تک تو اپنی عادت پر قائم رہے گا اللہ کی مدد تیرے شامل حال رہے گی۔‘‘
تشریح :
(۱)صلہ رحمی حقیقت میں یہی ہے کہ قطع تعلقی کرنے والے رشتہ داروں کو قریب کیا جائے۔ صلہ رحمی کے بدلے میں صلہ رحمی عمل خیر تو ہے لیکن وہ صرف بدلہ ہے۔ برا سلوک کرنے والوں سے حسن سلوک کرنا دل گردے کی بات ہے اور بہت عظیم لوگ ہی ایسا کرتے ہیں۔
(۲) ’’تو ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تو ان کے ساتھ احسان کرکے انہیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے رویے کا جائزہ لیں۔ اس طرح انہیں اپنے رویے اور تیرے حسن سلوک کا موازنہ کرکے خود ہی شرمندگی اور ذلت ہوگی۔
(۳) اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حصول کے لیے رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے۔ اور ان کے جاہلانہ رویوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان سے حسن سلوک کرتے رہنا چاہیے۔
تخریج :
صحیح: أخرجه مسلم، کتاب البر والصلة، باب صلة الرحم و تحریم قطیعتها: ۲۵۵۸۔ ومسند أحمد: ۲؍ ۳۰۰۔ الصحیحة: ۲۵۹۷۔
(۱)صلہ رحمی حقیقت میں یہی ہے کہ قطع تعلقی کرنے والے رشتہ داروں کو قریب کیا جائے۔ صلہ رحمی کے بدلے میں صلہ رحمی عمل خیر تو ہے لیکن وہ صرف بدلہ ہے۔ برا سلوک کرنے والوں سے حسن سلوک کرنا دل گردے کی بات ہے اور بہت عظیم لوگ ہی ایسا کرتے ہیں۔
(۲) ’’تو ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تو ان کے ساتھ احسان کرکے انہیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے رویے کا جائزہ لیں۔ اس طرح انہیں اپنے رویے اور تیرے حسن سلوک کا موازنہ کرکے خود ہی شرمندگی اور ذلت ہوگی۔
(۳) اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حصول کے لیے رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے۔ اور ان کے جاہلانہ رویوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان سے حسن سلوک کرتے رہنا چاہیے۔