كِتَابُ بَابُ عِيَادَةِ الْمَرْضَى حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمِّ السَّائِبِ، وَهِيَ تُزَفْزِفُ، فَقَالَ: ((مَا لَكِ؟)) قَالَتِ: الْحُمَّى أَخْزَاهَا اللَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَهْ، لَا تَسُبِّيهَا، فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا الْمُؤْمِنِ، كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ))
کتاب
عام مریضوں کی عیادت کرنا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام السائب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو وہ کانپ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’تمہیں کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے عرض کیا:بخار ہے، اللہ اسے رسوا کرے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’چپ رہو، بخار کو برا بھلا مت کہو کیونکہ یہ مومن کے گناہوں کو اسی طرح ختم کر دیتا ہے جس بھٹی لوہے کا میل کچیل ختم کر دیتی ہے۔‘‘
تشریح :
(۱)بخار کو برا بھلا کہنے اور اس پر واویلا کرنے کے بجائے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اسے برا بھلا کہنا اللہ کی تقدیر پر ناراضی کا اظہار ہے جو کہ درست نہیں۔
(۲) عزیز و اقارب کی خواتین کی تیمار داری کرنا اور صبر کی تلقین کرنا بھی جائز امر ہے، البتہ جہاں کسی فتنے کا اندیشہ ہو وہاں اس سے احتراز کرنا چاہیے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه مسلم، کتاب البر والصلة والادب:۲۵۷۵۔ والنسائي في الکبریٰ:۱۰۸۳۵۔ انظر الصحیحة:۷۱۵، ۱۲۱۵۔
(۱)بخار کو برا بھلا کہنے اور اس پر واویلا کرنے کے بجائے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اسے برا بھلا کہنا اللہ کی تقدیر پر ناراضی کا اظہار ہے جو کہ درست نہیں۔
(۲) عزیز و اقارب کی خواتین کی تیمار داری کرنا اور صبر کی تلقین کرنا بھی جائز امر ہے، البتہ جہاں کسی فتنے کا اندیشہ ہو وہاں اس سے احتراز کرنا چاہیے۔