الادب المفرد - حدیث 512

كِتَابُ بَابُ عِيَادَةِ الصِّبْيَانِ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ صَبِيًّا لَابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَقُلَ، فَبَعَثَتْ أُمُّهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ وَلَدِي فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ لِلرَّسُولِ: " اذْهَبْ فَقُلْ لَهَا: إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجْلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ "، فَرَجَعَ الرَّسُولُ فَأَخْبَرَهَا، فَبَعَثَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَمَا جَاءَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، مِنْهُمْ: سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيَّ فَوَضَعَهُ بَيْنَ ثَنْدُوَتَيْهِ، وَلِصَدْرِهِ قَعْقَعَةٌ كَقَعْقَعَةِ الشَّنَّةِ، فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: أَتَبْكِي وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: ((إِنَّمَا أَبْكِي رَحْمَةً لَهَا، إِنَّ اللَّهَ لَا يَرْحَمُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا الرُّحَمَاءَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 512

کتاب بچوں کی تیمار داری کرنا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لخت جگر (سیدہ زینب)کا بچہ شدید بیمار ہوگیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ میرا بچہ (علی)موت کی کشمکش میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد سے فرمایا:’’جاکر انہیں کہو:بلاشبہ اللہ کا ہے جو وہ لے لے اور اسی کا ہے جو وہ دے دے اور ہر چیز اس کے ہاں ایک مدت مقرر تک ہے۔ اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ثواب کی امید رکھے۔‘‘ قاصد نے آکر سیدہ کو پیغام دیا تو انہوں نے قاصد کو دوبارہ بھیجا کہ آپ کی بیٹی قسم دیتی ہے کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ نبی رضی اللہ عنہ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اٹھے جن میں حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا تو بچے کی چھاتی مشکیزے کی طرح کھڑ کھڑا رہی تھی۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا:آپ اللہ کے رسول ہوکر روتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں اس پر رحمت اور شفقت کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے صرف رحم کرنے والے بندوں پر رحم فرماتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت کیا کہ چھوٹے بچوں کی تیمار داری بھی جائز ہے، نیز یہ معلوم ہوا کہ کسی قریبی کو استفسار کرکے بھی تیمار داری کے لیے بلایا جاسکتا ہے۔ (۲) تعزیت کے وقت تسلی دیتے ہوئے یہی دعا پڑھنی چاہیے۔ کوئی سامنے موجود ہو، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، تو کہنا چاہیے ’’اصبر واحتسب‘‘ تو صبر کر اور ثواب کی نیت کر۔ خود ساختہ طریقوں سے اعراض کرنا چاہیے۔ اسی طرح جس کا کوئی عزیز فوت ہو جائے اس کے ساتھ یہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ غم زدہ ہو جیسا کہ عموماً خواتین کرتی ہیں۔ (۳) مال اور اولاد ہر چیز اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اگر وہ اپنی امانت واپس لے لے تو انسان کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ (۴) اپنی یا کسی کی مصیبت پر رونا آجانا فطری بات ہے۔ اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔ البتہ جزع فزع کرنا اور آوازیں نکالنا، نیز بے صبری کا مظاہرہ کرنا ممنوع ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الجنائز، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم...:۱۲۸۴، ۵۶۵۵، ۷۳۷۷۔ ومسلم:۹۲۳۔ وأبي داود:۳۱۲۵۔ والنسائي:۱۸۶۸۔ وابن ماجة:۱۵۸۸۔ (۱)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت کیا کہ چھوٹے بچوں کی تیمار داری بھی جائز ہے، نیز یہ معلوم ہوا کہ کسی قریبی کو استفسار کرکے بھی تیمار داری کے لیے بلایا جاسکتا ہے۔ (۲) تعزیت کے وقت تسلی دیتے ہوئے یہی دعا پڑھنی چاہیے۔ کوئی سامنے موجود ہو، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، تو کہنا چاہیے ’’اصبر واحتسب‘‘ تو صبر کر اور ثواب کی نیت کر۔ خود ساختہ طریقوں سے اعراض کرنا چاہیے۔ اسی طرح جس کا کوئی عزیز فوت ہو جائے اس کے ساتھ یہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ غم زدہ ہو جیسا کہ عموماً خواتین کرتی ہیں۔ (۳) مال اور اولاد ہر چیز اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اگر وہ اپنی امانت واپس لے لے تو انسان کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ (۴) اپنی یا کسی کی مصیبت پر رونا آجانا فطری بات ہے۔ اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔ البتہ جزع فزع کرنا اور آوازیں نکالنا، نیز بے صبری کا مظاہرہ کرنا ممنوع ہے۔