الادب المفرد - حدیث 510

كِتَابُ بَابُ هَلْ يَكُونُ قَوْلُ الْمَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، شِكَايَةً؟ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَوْعُوكٌ، عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، فَوَجَدَ حَرَارَتَهَا فَوْقَ الْقَطِيفَةِ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مَا أَشَدَّ حُمَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ((إِنَّا كَذَلِكَ، يَشْتَدُّ عَلَيْنَا الْبَلَاءُ، وَيُضَاعَفُ لَنَا الْأَجْرُ)) ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: ((الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُونَ، وَقَدْ كَانَ أَحَدُهُمْ يُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ إِلَّا الْعَبَاءَةَ يَجُوبُهَا فَيَلْبَسُهَا، وَيُبْتَلَى بِالْقُمَّلِ حَتَّى يَقْتُلَهُ، وَلَأَحَدُهُمْ كَانَ أَشَدَّ فَرَحًا بِالْبَلَاءِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِالْعَطَاءِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 510

کتاب کیا مریض کا یہ کہنا کہ ’’مجھے تکلیف ہے‘‘ شکوہ ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ کو بخار تھا اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے چادر کے اوپر سے ہاتھ آپ پر رکھا تو اس کے اوپر سے بھی حرارت محسوس کی تو عرض کیا:اے اللہ کے رسول! آپ کو کس قدر شدید بخار ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہم پر آزمائشیں اسی طرح سخت آتی ہیں اور ہمارے لیے اجر بھی دگنا ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ سخت آزمائشیں کن لوگوں پر آتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’انبیاء علیہم السلام پر، پھر نیک لوگوں پر۔ ان میں سے کسی کو اس قدر تنگ دستی کی آزمائش میں ڈالا جاتا کہ اس کے پاس ایک عبا کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا جسے وہ پھاڑ کر پہن لیتے تھے۔ اور انہیں جوؤں اور پسوؤں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا جاتا یہاں تک وہ انہیں مار ڈالتیں۔ وہ آزمائش سے اتنے خوش ہوتے تھے جتنے تم عطیہ ملنے سے خوش ہوتے ہو۔‘‘
تشریح : (۱)مسلمان کی آزمائش اس کے دین کے حساب سے ہوتی ہے۔ دین میں جس قدر پختگی ہوگی آزمائش اسی قدر سخت ہوگی۔ اور اس تکلیف کا اظہار کرنا بھی جائز ہے، خصوصاً جب اسی میں شرعی مصلحت ہو۔ (۲) ابتلا و آزمائش کا سوال نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر مصیبت آجائے تو اس پر صبر کی دعا کرنی چاہیے اور سلف کے مصائب کو دیکھنا چاہیے۔ (۳) مصیبت پر خوشی در حقیقت اس پر ملنے والے اجر کی بنا پر ہوتی ہے۔ جس کا یقین جس قدر پختہ ہوگا وہ اسی قدر اس انعام پر زیادہ خوش ہوگا۔
تخریج : صحیح:أخرجه ابن ماجة، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء:۴۰۲۴۔ انظر الصحیحة:۱۴۴۔ (۱)مسلمان کی آزمائش اس کے دین کے حساب سے ہوتی ہے۔ دین میں جس قدر پختگی ہوگی آزمائش اسی قدر سخت ہوگی۔ اور اس تکلیف کا اظہار کرنا بھی جائز ہے، خصوصاً جب اسی میں شرعی مصلحت ہو۔ (۲) ابتلا و آزمائش کا سوال نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر مصیبت آجائے تو اس پر صبر کی دعا کرنی چاہیے اور سلف کے مصائب کو دیکھنا چاہیے۔ (۳) مصیبت پر خوشی در حقیقت اس پر ملنے والے اجر کی بنا پر ہوتی ہے۔ جس کا یقین جس قدر پختہ ہوگا وہ اسی قدر اس انعام پر زیادہ خوش ہوگا۔