الادب المفرد - حدیث 51

كِتَابُ بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ. . .﴾ [الإسراء: 26] ، قَالَ: بَدَأَ فَأَمَرَهُ بِأَوْجَبِ الْحُقُوقِ، وَدَلَّهُ عَلَى أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ إِذَا كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَقَالَ: ﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ﴾ [الإسراء: 26] ، وَعَلَّمَهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ شَيْءٌ كَيْفَ يَقُولُ، فَقَالَ: ﴿وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُورًا﴾ [الإسراء: 28] عِدَّةً حَسَنَةً كَأَنَّهُ قَدْ كَانَ، وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ﴾ [الإسراء: 29] لَا تُعْطِي شَيْئًا، ﴿وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ﴾ [الإسراء: 29] تُعْطِي مَا عِنْدَكَ، ﴿فَتَقْعُدَ مَلُومًا﴾ [الإسراء: 29] يَلُومُكَ مَنْ يَأْتِيكَ بَعْدُ، وَلَا يَجِدُ عِنْدَكَ شَيْئًا ﴿مَحْسُورًا﴾ [الإسراء: 29] ، قَالَ: قَدْ حَسَّرَكَ مَنْ قَدْ أَعْطَيْتَهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 51

کتاب صلہ رحمی کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ. . .﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے پہلے جو سب سے زیادہ واجب حقوق ہیں ان کا حکم فرمایا: (یعنی اللہ کی توحید اور والدین سے حسن سلوک)اور مال ہونے کی صورت میں اعمال میں سے افضل عمل کی راہنمائی فرمائی کہ ’’قریبی رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو بھی‘‘ اور مال نہ ہونے کی صورت میں یہ تعلیم دی کہ ’’اگر تو اپنے رب کی رحمت (روزی)تلاش کرنے کی وجہ سے ان عزیز و اقارب سے اعراض کرے تو ان سے نرم بات کہہ‘‘ یعنی ان سے کہیے کہ ان شاء اللہ کوئی صورت نکل آئے گی تو پھر آپ سے تعاون کریں گے (کیونکہ)ارشاد باری تعالیٰ ﴿ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ ﴾ ’’’اور اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر نہ رکھ۔‘‘ کا مطلب ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اسے بالکل کچھ نہ دیں اور جان چھڑا لیں۔ اور ﴿ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ ﴾ ’’اور اپنے ہاتھ کو بالکل ہی مت پھیلائیں‘‘ کا مطلب ہے: ایسا نہ کرو کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سارا ہی دے دو کہ ﴿ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا ﴾ ’’پھر ملامت زدہ اور تھکا ہارا ہوکر بیٹھ رہے۔‘‘ یعنی بعد میں آنے والا آپ کے پاس کچھ نہ پاکر آپ کو ملامت کرے اور آپ اپنے دیے پر حسرت و افسوس کرتے رہیں۔‘‘
تشریح : یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم آیات کا مفہوم یہی ہے کہ خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لینا چاہیے اور مال نہ ہونے کی صورت میں سائل سے احسن انداز میں معذرت کرنی چاہیے۔
تخریج : ضعیف: أخرجه البخاري، فی التاریخ الکبیر: ۱؍ ۲۳۶۔ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم آیات کا مفہوم یہی ہے کہ خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لینا چاہیے اور مال نہ ہونے کی صورت میں سائل سے احسن انداز میں معذرت کرنی چاہیے۔