الادب المفرد - حدیث 509

كِتَابُ بَابُ هَلْ يَكُونُ قَوْلُ الْمَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، شِكَايَةً؟ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَلَى أَسْمَاءَ، قَبْلَ قَتْلِ عَبْدِ اللَّهِ بِعَشْرِ لَيَالٍ، وَأَسْمَاءُ وَجِعَةٌ، فَقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: وَجِعَةٌ، قَالَ: إِنِّي فِي الْمَوْتِ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكَ تَشْتَهِي مَوْتِي، فَلِذَلِكَ تَتَمَنَّاهُ؟ فَلَا تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ مَا أَشْتَهِي أَنْ أَمُوتَ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ أَحَدُ طَرَفَيْكَ، أَوْ تُقْتَلَ فَأَحْتَسِبَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَظْفُرَ فَتَقَرَّ عَيْنِي، فَإِيَّاكَ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْكَ خُطَّةٌ، فَلَا تُوَافِقُكَ، فَتَقْبَلُهَا كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ. وَإِنَّمَا عَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ لِيُقْتَلَ فَيُحْزِنُهَا ذَلِكَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 509

کتاب کیا مریض کا یہ کہنا کہ ’’مجھے تکلیف ہے‘‘ شکوہ ہے سیدنا عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے سے دس دن پہلے کی بات ہے؟ اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا نے پوچھا:آپ کی صحت کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا:مجھے تکلیف ہے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:میں بھی موت کی حالت میں ہوں۔ سیدہ اسماء نے فرمایا:شاید تم میری موت چاہتے ہو اس لیے اس کی تمنا کرتے ہو، تم ایسا نہ کرو۔ اللہ کی قسم میں اس وقت تک موت نہیں چاہتی جب تک معاملہ ایک طرف نہ ہو جائے یا تم قتل کر دیے جاؤ اور میں اس پر صبر کرکے اللہ تعالیٰ سے ثواب لے لوں یا تم کامیاب ہو جاؤ اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم اس بات سے بچنا کہ تم پر کوئی ایسا معاملہ پیش کیا جائے جس کی تم موافقت نہ کرتے ہو اور موت کے ڈر سے اسے قبول کرلو۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ والدہ کی وفات پہلے ہو جائے تاکہ اگر میں قتل ہو جاؤں تو اس کا انہیں غم نہ ہو۔
تشریح : (۱)سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت تقریباً سو سال تھی۔ وہ بیمار تھیں لیکن ان کا حوصلہ جوان تھا۔ عمر کے اس حصے میں بھی اپنے بیٹے کو جرأت و بہادری کا درس دے رہی تھیں کہ موت کے ڈر سے کسی ایسی بات پر کمپرو مائز نہ کرنا جس کو تم غلط سمجھتے ہو۔ (۲) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ ’’مجھے تکلیف ہے‘‘ شکوہ نہیں بلکہ انہوں نے حقیقت سے آگاہ کیا۔ ایسا کہنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ (۳) یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب حجاج بن یوسف سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف جنگ کرنے والا تھا۔ بالآخر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو شہید کر دیا گیا اور ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے نہایت صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔
تخریج : صحیح:أخرجه ابن ابي شیبة:۳۷۳۲۶۔ وأبو نعیم في الحلیة :۲؍ ۵۶۔ وابن عبدالبر في الاستیعاب:۳؍ ۹۰۷۔ وابن عساکر في تاریخه:۶۹؍ ۲۲۔ (۱)سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت تقریباً سو سال تھی۔ وہ بیمار تھیں لیکن ان کا حوصلہ جوان تھا۔ عمر کے اس حصے میں بھی اپنے بیٹے کو جرأت و بہادری کا درس دے رہی تھیں کہ موت کے ڈر سے کسی ایسی بات پر کمپرو مائز نہ کرنا جس کو تم غلط سمجھتے ہو۔ (۲) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ ’’مجھے تکلیف ہے‘‘ شکوہ نہیں بلکہ انہوں نے حقیقت سے آگاہ کیا۔ ایسا کہنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ (۳) یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب حجاج بن یوسف سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف جنگ کرنے والا تھا۔ بالآخر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو شہید کر دیا گیا اور ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے نہایت صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔