الادب المفرد - حدیث 505

كِتَابُ بَابُ يُكْتَبُ لِلْمَرِيضِ مَا كَانَ يَعْمَلُ وَهُوَ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ أَبِي بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ: قَالَ لِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ الْمَرْأَةُ السَّوْدَاءُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قَالَ: ((إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكَ)) ، فَقَالَتْ: أَصْبِرُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ لَا أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 505

کتاب مریض کا ہر وہ اچھا عمل لکھا جاتا ہے جو وہ حالت صحت میں کرتا تھا عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا:کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا:کیوں نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:یہ سیاہ فام عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:مجھے بے ہوشی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بے لباس ہو جاتی ہوں، لہٰذا میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر تم چاہو تو صبر کرو، اس کے بدلے میں تیرے لیے جنت ہے اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔‘‘ اس نے عرض کیا:میں صبر کرتی ہوں، پھر کہا:میرے کپڑے اتر جاتے ہیں، لہٰذا للہ سے دعا فرمائیں کہ کپڑے نہ اترا کریں تو آپ نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔
تشریح : (۱)اس عورت کا نام سعیرۃ اسدیہ یا ام زفر تھا۔ یہ حبشیہ تھیں اور یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی کنگھی کرتی تھیں۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر پر راضی رہتے ہوئے صبر کرنا اور علاج معالجہ نہ کرنا جائز ہے، تاہم دوا لینا جائز ہے تو کل کے منافي نہیں ہے۔ اسباب کو اختیار کرکے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا ہی توکل ہے۔ (۳) بیماری کے علاج کے حوالے سے چار امور جائز ہیں۔ ٭ بیمار آدمی کا از خود بیماری کے دور ہونے کی دعا کرنا، یہ شرعاً مشروع ہے۔ ٭ مطالبے کے بغیر کسی دوسرے آدمی کا دعا کرنا، یہ بھی جائز ہے۔ ٭ دنیا میں موجود کسی شخص سے دعا کی درخواست کرنا۔ ٭ دوا استعمال کرنا۔ (۴) یہ سارے ذرائع استعمال کرنے کے بعد بھی بیماری ختم نہ ہو تو انسان کو صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنی چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ بیماری اس کے حق میں بہتر ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب المرضٰی، باب فضل من یصرع من الریح:۵۶۵۲۔ ومسلم:۲۵۷۶۔ انظر الصحیحة:۲۵۰۲۔ (۱)اس عورت کا نام سعیرۃ اسدیہ یا ام زفر تھا۔ یہ حبشیہ تھیں اور یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی کنگھی کرتی تھیں۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر پر راضی رہتے ہوئے صبر کرنا اور علاج معالجہ نہ کرنا جائز ہے، تاہم دوا لینا جائز ہے تو کل کے منافي نہیں ہے۔ اسباب کو اختیار کرکے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا ہی توکل ہے۔ (۳) بیماری کے علاج کے حوالے سے چار امور جائز ہیں۔ ٭ بیمار آدمی کا از خود بیماری کے دور ہونے کی دعا کرنا، یہ شرعاً مشروع ہے۔ ٭ مطالبے کے بغیر کسی دوسرے آدمی کا دعا کرنا، یہ بھی جائز ہے۔ ٭ دنیا میں موجود کسی شخص سے دعا کی درخواست کرنا۔ ٭ دوا استعمال کرنا۔ (۴) یہ سارے ذرائع استعمال کرنے کے بعد بھی بیماری ختم نہ ہو تو انسان کو صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنی چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ بیماری اس کے حق میں بہتر ہے۔