الادب المفرد - حدیث 50

كِتَابُ بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي مُزَرِّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْخَلْقَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهُ قَامَتِ الرَّحِمُ، فَقَالَ: مَهْ، قَالَتْ: هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ الْقَطِيعَةِ، قَالَ: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ، وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ؟ قَالَتْ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَذَلِكَ لَكِ " ثُمَّ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَؤُوا إِنْ شِئْتُمْ: ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ﴾ [محمد: 22]

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 50

کتاب صلہ رحمی کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا: جب ان کی تخلیق ہوچکی تو رحم کھڑا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: یہ قطع رحمی سے تیری پناہ مانگنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں اور جو تجھے کاٹے میں اسے کاٹ دوں؟ رحم نے کہا: اے رب تعالیٰ ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تیرے لیے طے کر دی گئی۔‘‘ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم چاہو تو (بطور تصدیق)یہ آیت پڑھ لو: ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴾ ’’پھر (اے منافقو!)تم سے یہی امید ہے کہ اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتے ناطے توڑ ڈالو۔‘‘
تشریح : (۱)تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور رحم بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ (۲) اس سے رحم کا اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا اور کھڑا ہونا ثابت ہوتا ہے اور اسے حقیقی معنی پر محمول کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے قوت گویائی دینے پر قادر ہے، نیز صلہ رحمی کی فضیلت بھی معلوم ہوئی۔ (۳) صلہ رحمی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ ملانے کا وعدہ فرمایا اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور قطع رحمی کرنے والے کو اپنی ذات سے الگ کرنے کی وعید سنائی اور اس سے بڑی حرمان نصیبی اور کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ساتھ ملانے کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ اسے اپنی حفاظت میں لے لے گا اور اسے رسوا نہیں کرے گا۔ (۴) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث کی تائید مزید کے لیے آیت کریمہ کا حوالہ دیا جس میں صلہ رحمی کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ صراحت ہے کہ قطع رحمی زمین میں فساد برپا کرنے کے مترادف ہے۔ نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کی تائید میں آیت قرآنی پیش کی جاسکتی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دینی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے پہلے قرآن پھر حدیث دیکھنا ضروری نہیں۔ پہلے حدیث سے بھی مسئلہ تلاش کیاجا سکتا ہے کیونکہ قرآن و حدیث دونوں ہی شرعی حجت ہیں۔
تخریج : صحیح: أخرجه البخاري، التفسیر، باب سورة محمد: ۴۸۳۰۔ ومسلم: ۲۵۵۴۔ الصحیحة: ۲۷۴۱۔ (۱)تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور رحم بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ (۲) اس سے رحم کا اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا اور کھڑا ہونا ثابت ہوتا ہے اور اسے حقیقی معنی پر محمول کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے قوت گویائی دینے پر قادر ہے، نیز صلہ رحمی کی فضیلت بھی معلوم ہوئی۔ (۳) صلہ رحمی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ ملانے کا وعدہ فرمایا اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور قطع رحمی کرنے والے کو اپنی ذات سے الگ کرنے کی وعید سنائی اور اس سے بڑی حرمان نصیبی اور کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ساتھ ملانے کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ اسے اپنی حفاظت میں لے لے گا اور اسے رسوا نہیں کرے گا۔ (۴) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث کی تائید مزید کے لیے آیت کریمہ کا حوالہ دیا جس میں صلہ رحمی کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ صراحت ہے کہ قطع رحمی زمین میں فساد برپا کرنے کے مترادف ہے۔ نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کی تائید میں آیت قرآنی پیش کی جاسکتی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دینی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے پہلے قرآن پھر حدیث دیکھنا ضروری نہیں۔ پہلے حدیث سے بھی مسئلہ تلاش کیاجا سکتا ہے کیونکہ قرآن و حدیث دونوں ہی شرعی حجت ہیں۔