الادب المفرد - حدیث 499

كِتَابُ بَابُ الْعِيَادَةِ جَوْفَ اللَّيْلِ حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، أَنَّ أَبَاهَا قَالَ: اشْتَكَيْتُ بِمَكَّةَ شَكْوَى شَدِيدَةً، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَتْرُكُ مَالًا، وَإِنِّي لَمْ أَتْرُكْ إِلَّا ابْنَةً وَاحِدَةً، أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي، وَأَتْرُكُ الثُّلُثَ؟ قَالَ: ((لَا)) ، قَالَ: أُوصِي النِّصْفَ، وَأَتْرُكُ لَهَا النِّصْفَ؟ قَالَ: ((لَا)) ، قَالَ: فَأَوْصِي بِالثُّلُثِ، وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: ((الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ)) ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِي، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهِي وَبَطْنِي، ثُمَّ قَالَ: ((اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، وَأَتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ)) ، فَمَا زِلْتُ أَجِدُ بَرْدَ يَدِهِ عَلَى كَبِدِي فِيمَا يَخَالُ إِلَيَّ حَتَّى السَّاعَةِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 499

کتاب رات کے وقت مریض کی عیادت کرنا حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں شدید بیمار ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری تیمار داری کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میں کافي زیادہ مال چھوڑ کر جا رہا ہوں جبکہ میری وارث صرف ایک بیٹی ہے۔ کیا میں دو تہائی مال کی اللہ کی راہ میں وصیت کر دوں اور ایک تہائی اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں۔‘‘ اس نے کہا:آدھے مال کی وصیت کردوں اور آدھا بیٹی کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں‘‘ میں نے عرض کیا:تیسرے حصے کی وصیت کردوں اور دو حصے اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا:’’تیسرے حصے کی وصیت کرلو، ویسے تیسرا بھی زیادہ ہے۔‘‘ پھر آپ نے اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھا۔ چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا:اے اللہ سعد کو شفا عطا فرما اور اس کی ہجرت پوری فرما۔‘‘ میں اپنے جگر میں آپ کے ہاتھ کی ٹھنڈک مسلسل محسوس کرتا رہا ہوں حتی کہ ابھی تک کر رہا ہوں۔
تشریح : (۱)تیمار داری کسی بھی مناسب وقت میں کی جاسکتی ہے اور اگر گھر والے پریشان نہ ہوں یا ہنگامی صورت حال ہو تو رات کے وقت بھی تیمار داری کی جاسکتی ہے۔ (۲) انسان کو چاہیے کہ دنیا سے جانے سے پہلے کچھ مال اپنی آخرت کے لیے بھی بھیجے، تاہم زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ دم کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا ہے اور آپ کو بھی جبرائیل امین نے دم کیا۔ اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری میں آپ کو دم کرتی تھیں لیکن اپنے ہاتھ کی بجائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھیرتی تھیں۔ (۴) سعد رضی اللہ عنہ حدیث میں مذکور موقع پر صرف ایک بیٹی کے باپ تھے نبی علیہ السلام کی دعا سے وہ اس بیماری سے شفا یاب ہو گئے عمر بن خطاب کے دورِ خلافت میں کوفہ کے گورنر بھی رہے اور بعد میں ان کی نرینہ اولاد بھی ہوئی۔ (بخاري:۲۷۴۲، مزید حدیث نمبر ۵۲۰ دیکھیں)
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب المرضٰی، باب وضع الید علی المریض:۵۶۵۹۔ ومسلم:۱۶۲۸۔ وأبي داود:۳۱۰۴۔ والنسائي:۳۶۲۶۔ والترمذي:۹۷۵۔ مختصراً۔ (۱)تیمار داری کسی بھی مناسب وقت میں کی جاسکتی ہے اور اگر گھر والے پریشان نہ ہوں یا ہنگامی صورت حال ہو تو رات کے وقت بھی تیمار داری کی جاسکتی ہے۔ (۲) انسان کو چاہیے کہ دنیا سے جانے سے پہلے کچھ مال اپنی آخرت کے لیے بھی بھیجے، تاہم زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ دم کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا ہے اور آپ کو بھی جبرائیل امین نے دم کیا۔ اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری میں آپ کو دم کرتی تھیں لیکن اپنے ہاتھ کی بجائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھیرتی تھیں۔ (۴) سعد رضی اللہ عنہ حدیث میں مذکور موقع پر صرف ایک بیٹی کے باپ تھے نبی علیہ السلام کی دعا سے وہ اس بیماری سے شفا یاب ہو گئے عمر بن خطاب کے دورِ خلافت میں کوفہ کے گورنر بھی رہے اور بعد میں ان کی نرینہ اولاد بھی ہوئی۔ (بخاري:۲۷۴۲، مزید حدیث نمبر ۵۲۰ دیکھیں)