الادب المفرد - حدیث 490

كِتَابُ بَابُ الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ مُسْهِرٍ - أَوْ بَلَغَنِي عَنْهُ - قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: ((يَا عِبَادِي، إِنِّي قَدْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ مُحَرَّمًا بَيْنَكُمْ فَلَا تَظَالَمُوا. يَا عِبَادِي، إِنَّكُمُ الَّذِينَ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ، وَلَا أُبَالِي، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ. يَا عِبَادِي، كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ. يَا عِبَادِي، كُلُّكُمْ عَارٍ إِلَّا مِنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ. يَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْكُمْ، لَمْ يَزِدْ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا، وَلَوْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ، لَمْ يَنْقُصْ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا، وَلَوِ اجْتَمَعُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مَا سَأَلَ، لَمْ يَنْقُصْ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا، إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ الْبَحْرُ أَنْ يُغْمَسَ فِيهِ الْخَيْطُ غَمْسَةً وَاحِدَةً. يَا عِبَادِي، إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أَجْعَلُهَا عَلَيْكُمْ، فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَا يَلُومُ إِلَّا نَفْسَهُ)) كَانَ أَبُو إِدْرِيسَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ جَثَى عَلَى رُكْبَتَيْهِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 490

کتاب ظلم آخرت میں تاریکیاں ہوں گی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے میرے بندو! بلاشبہ میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام ٹھہرایا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے، لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں گناہوں کو معاف کرتا ہوں اور مجھے کوئی پروا نہیں اس لیے مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو مگر جسے میں کھلاؤں اس لیے مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو مگر جسے میں پہناؤں، لہٰذا مجھ سے لباس طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور بعد والے انسان اور جن سب اس شخص کی طرح ہو جائیں جو تم میں سے زیادہ متقی ہے تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کرے گی اور اگر وہ سب سے برے آدمی کی طرح ہو جائیں تو یہ بات میری سلطنت میں اتنی ہی کمی کرے گی جتنی کمی سمندر میں دھاگا ایک دفعہ ڈبو کر نکالنے سے ہوگی۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لیے (شمار کرکے)رکھ رہا ہوں، لہٰذا جس کے اعمال اچھے ہوں اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جس کے اعمال اس کے علاوہ ہوں اسے اپنے آپ کو ملامت کرنا چاہیے۔‘‘ ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو (اس کی تعظیم کے پیش نظر)گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے۔
تشریح : (۱)یہ حدیث قدسی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست اللہ تعالیٰ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں بھی ظلم کی قباحت ذکر کی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ظلم کی ناپسندیدگی کا ذکر نہایت مؤثر انداز میں فرمایا کہ میں ہر چیز کا خالق ہوں اور لوگوں کی تمام ضروریات پوری کرتا ہوں اور لوگ میرے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں لیکن میں قوت و طاقت کے باوجود لوگوں پر ظلم نہیں کرتا۔ تو انسان کے لیے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے پر ظلم کرے۔ (۲) انسان جتنا بھی پارسا ہو جائے پھر بھی خطا کا پتلا ہے اس لیے اسے اپنے غفور رحیم رب سے معافي کی درخواست کرتے رہنا چاہیے۔ وہی گناہوں کو معاف کرنے والا ہے خواہ گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں۔ (۳) رزق کے اسباب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عطا کر دیے ہیں لیکن انسان صرف اپنی عقل کے بل بوتے پر کچھ حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کی عطا شامل نہ ہو اس لیے اسی ذات سے سوال کرنا چاہیے۔ ورنہ دولت ہوتے ہوئے بھی فقیری کی تلوار سر پہ لٹکی رہتی ہے۔ بندہ مومن دن رات محنت کرکے کمائے تو پھر بھی یہی کہتا ہے ہُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِین ’’وہی ذات عالی مجھے کھلاتی اور پلاتی ہے۔‘‘ کیونکہ محنت کی توفیق بھی اس کی عطا کردہ ہے۔ اس لیے ہرچیز کا اسی سے سوال کرنا چاہیے۔ (۴) انسان اگر فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کا فائدہ اسی کو ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور عظمت کامل اور اکمل ہے۔ ساری مخلوق فرمانبردار بن جائے تو اس کی سلطنت اتنی کامل ہے کہ اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا اور اگر سب گندے ترین بن جائیں تو اس کی عظمت میں کوئی کمی نہیں کرسکتے۔ سمندر میں سوئی یا دھاگا شاید کوئی کمی کرے لیکن لوگوں کا نافرمان ہونا اتنا بھی اللہ کی قدر کم نہیں کرسکتا۔ (۵) انسان جو عمل کرتا ہے، اچھا ہو یا برا، اس کو محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اچھے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور برے اعمال کا برا بدلہ ملے گا، اب انسان کی صوابدید ہے کہ اچھے عمل کرے یا برے۔ اللہ تعالیٰ نے خیر اور شر کے دونوں راستے بتا دیے ہیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب البر والصلة والأداب:۵۵، ۲۵۷۷۔ (۱)یہ حدیث قدسی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست اللہ تعالیٰ سے بیان کرتے ہیں۔ اس میں بھی ظلم کی قباحت ذکر کی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ظلم کی ناپسندیدگی کا ذکر نہایت مؤثر انداز میں فرمایا کہ میں ہر چیز کا خالق ہوں اور لوگوں کی تمام ضروریات پوری کرتا ہوں اور لوگ میرے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں لیکن میں قوت و طاقت کے باوجود لوگوں پر ظلم نہیں کرتا۔ تو انسان کے لیے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے پر ظلم کرے۔ (۲) انسان جتنا بھی پارسا ہو جائے پھر بھی خطا کا پتلا ہے اس لیے اسے اپنے غفور رحیم رب سے معافي کی درخواست کرتے رہنا چاہیے۔ وہی گناہوں کو معاف کرنے والا ہے خواہ گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں۔ (۳) رزق کے اسباب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عطا کر دیے ہیں لیکن انسان صرف اپنی عقل کے بل بوتے پر کچھ حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کی عطا شامل نہ ہو اس لیے اسی ذات سے سوال کرنا چاہیے۔ ورنہ دولت ہوتے ہوئے بھی فقیری کی تلوار سر پہ لٹکی رہتی ہے۔ بندہ مومن دن رات محنت کرکے کمائے تو پھر بھی یہی کہتا ہے ہُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِین ’’وہی ذات عالی مجھے کھلاتی اور پلاتی ہے۔‘‘ کیونکہ محنت کی توفیق بھی اس کی عطا کردہ ہے۔ اس لیے ہرچیز کا اسی سے سوال کرنا چاہیے۔ (۴) انسان اگر فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کا فائدہ اسی کو ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور عظمت کامل اور اکمل ہے۔ ساری مخلوق فرمانبردار بن جائے تو اس کی سلطنت اتنی کامل ہے کہ اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا اور اگر سب گندے ترین بن جائیں تو اس کی عظمت میں کوئی کمی نہیں کرسکتے۔ سمندر میں سوئی یا دھاگا شاید کوئی کمی کرے لیکن لوگوں کا نافرمان ہونا اتنا بھی اللہ کی قدر کم نہیں کرسکتا۔ (۵) انسان جو عمل کرتا ہے، اچھا ہو یا برا، اس کو محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اچھے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور برے اعمال کا برا بدلہ ملے گا، اب انسان کی صوابدید ہے کہ اچھے عمل کرے یا برے۔ اللہ تعالیٰ نے خیر اور شر کے دونوں راستے بتا دیے ہیں۔