الادب المفرد - حدیث 483

كِتَابُ بَابُ الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ حَدَّثَنَا بِشْرٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَحَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ، وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 483

کتاب ظلم آخرت میں تاریکیاں ہوں گی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ظلم سے بچو کیونکہ ظلم روز قیامت تاریکیاں اور اندھیرے بن کر سامنے آئے گا۔ اور بخل سے بچو کیونکہ اسی بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا اور انہیں اس بات پر ابھارا کہ انہوں نے آپس میں خون خرابا کیا اور حرام چیزوں کو حلال کیا۔
تشریح : (۱)لوگوں کے مال، ان کے خون اور عزت کے بارے ان پر زیادتی کرنا ظلم کہلاتا ہے۔ دنیا میں ظالم کو اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر کوئی اسے چھڑا نہیں سکتا۔ اس کا انجام دنیا و آخرت میں تباہی ہے۔ آخرت میں اہل ایمان کی نیکیوں کا نور ان کے سامنے ہوگا اور وہ اس کی روشنی میں چلیں گے جبکہ ظالموں کے لیے ان کا ظلم تاریکی میں مزید اضافہ کرے گا اور ان کے لیے کوئی روشنی نہیں ہوگی۔ (۲) یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ قیامت والے دن دنیا کا ایک ظلم کئی مشکلات کا باعث بن جائے گا جن سے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ (۳) ظلمات سے مراد سزا اور عقوبت بھی ہوسکتا ہے کہ ظلم سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے اور انسان حق و باطل میں فرق نہیں کر پاتا جو قیامت کی سزاؤں کا موجب ٹھہرتا ہے۔ (۴) انتہائی درجے کا حرص بخل کہلاتا ہے اور یہی فساد کی جڑ ہے۔ جس نفس میں سخاوت ہو، وہ معمولی چیزوں میں نہیں الجھتا اور یوں خون خرابا بھی نہیں ہوتا۔ بخیل آدمی مال کے لالچ میں حرام سے بھی گریز نہیں کرتا۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب البر والصلة:۲۵۷۸۔ انظر الصحیحة:۸۵۸۔ (۱)لوگوں کے مال، ان کے خون اور عزت کے بارے ان پر زیادتی کرنا ظلم کہلاتا ہے۔ دنیا میں ظالم کو اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر کوئی اسے چھڑا نہیں سکتا۔ اس کا انجام دنیا و آخرت میں تباہی ہے۔ آخرت میں اہل ایمان کی نیکیوں کا نور ان کے سامنے ہوگا اور وہ اس کی روشنی میں چلیں گے جبکہ ظالموں کے لیے ان کا ظلم تاریکی میں مزید اضافہ کرے گا اور ان کے لیے کوئی روشنی نہیں ہوگی۔ (۲) یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ قیامت والے دن دنیا کا ایک ظلم کئی مشکلات کا باعث بن جائے گا جن سے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ (۳) ظلمات سے مراد سزا اور عقوبت بھی ہوسکتا ہے کہ ظلم سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے اور انسان حق و باطل میں فرق نہیں کر پاتا جو قیامت کی سزاؤں کا موجب ٹھہرتا ہے۔ (۴) انتہائی درجے کا حرص بخل کہلاتا ہے اور یہی فساد کی جڑ ہے۔ جس نفس میں سخاوت ہو، وہ معمولی چیزوں میں نہیں الجھتا اور یوں خون خرابا بھی نہیں ہوتا۔ بخیل آدمی مال کے لالچ میں حرام سے بھی گریز نہیں کرتا۔