كِتَابُ بَابُ اصْطِنَاعِ الْمَالِ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا تُنْتَجُ فَرَسُهُ فَيَنْحَرُهَا فَيَقُولُ: أَنَا أَعِيشُ حَتَّى أَرْكَبَ هَذَا؟ فَجَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ: أَنْ أَصْلِحُوا مَا رَزَقَكُمُ اللَّهُ، فَإِنَّ فِي الْأَمْرِ تَنَفُّسًا
کتاب
مال جمع کرنا اور اس کی حفاظت کرنا
حارث بن لقیط رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے بعض لوگ ایسے تھے کہ جب اس کی گھوڑی بچہ جنتی تو وہ اس کو ذبح کر لیتا اور کہتا کہ میری زندگی کا کیا اعتبار کہ میں اس پر سواری کروں گا، پھر ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم نامہ آیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جو رزق دے اسے سنبھال کر رکھو، بلاشبہ قیامت میں ابھی دیر ہے۔
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قیامت قریب ہے اور نہ جانے کس وقت آجائے اس لیے مال کی حفاظت کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس لیے اس کو ذبح کرو، کھاؤ اور ٹھکانے لگاؤ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھائی کہ قیامت قریب ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان سارا مال ختم کر دے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ قیامت آرہی ہے بلکہ زندگی کے آخری لمحے تک کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ پھر قیامت کی بہت سی علامات ہیں جو اس سے پہلے رونما ہوں گی۔
تخریج :
صحیح:أخرجه وکیع في الزهد:۴۷۰۔ وهناد في الزهد:۲؍ ۶۵۵۔ وابن أبي الدنیا فیقصر الأمل:۹۱۔ ونعیم بن حماد في الفتن:۱۸۱۵۔ وانظر الصحیحة:۹۔
مطلب یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قیامت قریب ہے اور نہ جانے کس وقت آجائے اس لیے مال کی حفاظت کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس لیے اس کو ذبح کرو، کھاؤ اور ٹھکانے لگاؤ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھائی کہ قیامت قریب ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان سارا مال ختم کر دے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ قیامت آرہی ہے بلکہ زندگی کے آخری لمحے تک کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ پھر قیامت کی بہت سی علامات ہیں جو اس سے پہلے رونما ہوں گی۔