كِتَابُ بَابُ الرِّفْقِ فِي الْمَعِيشَةِ حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ حَفْصٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: أَمْسِكْ حَتَّى أَخِيطَ نَقْبَتِي فَأَمْسَكْتُ فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، لَوْ خَرَجْتُ فَأَخْبَرْتُهُمْ لَعَدُّوهُ مِنْكِ بُخْلًا، قَالَتْ: أَبْصِرْ شَأْنَكَ، إِنَّهُ لَا جَدِيدَ لِمَنْ لَا يَلْبَسُ الْخَلَقَ
کتاب
زندگی گزارنے میں سادگی اختیار کرنا
حضرت کثیر بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا:ذرا ٹھہرو میں اپنا پائجامہ سی لوں۔ کثیر کہتے ہیں:میں ٹھہر گیا اور کہا:ام المومنین! اگر میں باہر جاکر بتاؤں کہ آپ پرانا کپڑا سی رہی ہیں تو لوگ اسے آپ کی کنجوسی میں شمار کریں گے۔ انہوں نے فرمایا:سمجھ کر بات کرو، بات یہ ہے کہ جو پرانا کپڑا نہ پہنے اس کا نئے کپڑے میں کوئی حق نہیں۔
تشریح :
اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جو پرانا کپڑا نہیں پہنتا وہ اسراف اور فضول خرچ ہے اس لیے انسان کو اس مال کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ سادگی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور ایمان کا حصہ ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو ہر دفعہ نیا کپڑا پہنتا ہو اس پر اس کی فضول خرچی کی وجہ سے ایسا وقت آجاتا ہے کہ اس کے پاس نیا پہننے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ میانہ روی اور سادگی ہی میں عزت ہے۔ امہات المومنین مال کی فراوانی کے بعد بھی سادہ زندگی گزارتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔
تخریج :
حسن:أخرجه المصنف في التاریخ الکبیر:۷؍ ۲۰۷۔ وابن أبی الدنیا في إصلاح المال:۳۹۹۔
اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جو پرانا کپڑا نہیں پہنتا وہ اسراف اور فضول خرچ ہے اس لیے انسان کو اس مال کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ سادگی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور ایمان کا حصہ ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو ہر دفعہ نیا کپڑا پہنتا ہو اس پر اس کی فضول خرچی کی وجہ سے ایسا وقت آجاتا ہے کہ اس کے پاس نیا پہننے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ میانہ روی اور سادگی ہی میں عزت ہے۔ امہات المومنین مال کی فراوانی کے بعد بھی سادہ زندگی گزارتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔