كِتَابُ بَابُ الرِّفْقِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ، وَقَطَعُوا أَرْحَامَهُمْ، وَالظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))
کتاب
نرمی کرنے کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بخل سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کر دیا انہوں نے آپس میں خون خرابا کیا اور اسی کی وجہ سے باہمی رشتہ داریاں توڑیں اور ظلم قیامت والے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔‘‘
تشریح :
بخیل آدمی نرم مزاج نہیں ہوسکتا۔ وہ سخت مزاح ہوگا بخل سخت مزاجی کا سبب بھی بنتا ہے، اسی وجہ سے باہم لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور نوبت قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے۔ پھر انسان ایک دوسرے پر ظلم سے بھی نہیں چوکتا۔ اس لیے ہر صورت بخل سے اجتناب کرنا چاہیے اور نرم مزاجی کو فروغ دینا چاہیے۔
تخریج :
صحیح:الصحیحة:۸۵۸۔
بخیل آدمی نرم مزاج نہیں ہوسکتا۔ وہ سخت مزاح ہوگا بخل سخت مزاجی کا سبب بھی بنتا ہے، اسی وجہ سے باہم لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور نوبت قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے۔ پھر انسان ایک دوسرے پر ظلم سے بھی نہیں چوکتا۔ اس لیے ہر صورت بخل سے اجتناب کرنا چاہیے اور نرم مزاجی کو فروغ دینا چاہیے۔