الادب المفرد - حدیث 47

كِتَابُ بَابُ وُجُوبِ صِلَةِ الرَّحِمِ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْضَمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا كُلَيْبُ بْنُ مَنْفَعَةَ قَالَ: قَالَ جَدِّي: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ وَأَبَاكَ، وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، وَمَوْلَاكَ الَّذِي يَلِي ذَاكَ، حَقٌّ وَاجِبٌ، وَرَحِمٌ مَوْصُولَةٌ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 47

کتاب صلہ رحمی کے وجوب کا بیان کلیب بن منفعہ کا بیان ہے کہ ان کے دادا (بکر بن حارث انصاری)نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے حسن سلوک کرو۔ اور ان کے علاوہ جو عزیز و اقارب ہیں ان سے حسن سلوک کرو۔ یہ حق واجب ہے اور رشتہ داری کو نبھانا اور صلہ رحمی کرنا لازم ہے۔‘‘
تشریح : یہ روایت اس سیاق سے ضعیف ہے (دیکھیے، الارواء حدیث: ۸۳۷)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی حدیث میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے تو آپ نے تین بار والدہ کا نام لیا اور آخری بار فرمایا: پھر تیرا باپ اور اس کے بعد جو جتنا قریبی ہے اس کے ساتھ اس لحاظ سے حسن سلوک کرو۔ (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، حدیث: ۲۵۴۸)
تخریج : ضعیف: أخرجه ابي داود، الأدب، باب فی بر الوالدین: ۵۱۴۰۔ والطبراني فی الکبیر: ۲۲؍ ۳۱۰۔ والبخاري في التاریخ الکبیر: ۷؍ ۲۳۰۔ الارواء: ۸۳۷، ۲۱۶۳۔ یہ روایت اس سیاق سے ضعیف ہے (دیکھیے، الارواء حدیث: ۸۳۷)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی حدیث میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے تو آپ نے تین بار والدہ کا نام لیا اور آخری بار فرمایا: پھر تیرا باپ اور اس کے بعد جو جتنا قریبی ہے اس کے ساتھ اس لحاظ سے حسن سلوک کرو۔ (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، حدیث: ۲۵۴۸)