الادب المفرد - حدیث 461

كِتَابُ بَابُ نَقْشِ الْبُنْيَانِ حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَنْ يُنَجِّي أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلٌ)) ، قَالُوا: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ((وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَاغْدُوا وَرُوحُوا، وَشَيْءٌ مِنَ الدُّلْجَةِ، وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوا))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 461

کتاب عمارتوں پر نقش و نگار کرنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے کسی کو (محض)اس کا عمل نجات نہیں دے گا۔‘‘ انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا:’’میں بھی نہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے۔ تم سیدھے رہو اور قریب قریب چلتے رہو۔ صبح و شام اور کچھ رات کے اندھیرے میں عبادت کرتے رہو۔ اور میانہ روی اختیار کرو تم مقصد کو پہنچ جاؤ گے۔‘‘
تشریح : (۱)عمارتوں پر نقش و نگار کرنا میانہ روی نہیں بلکہ حد سے تجاوز ہے۔ میانہ روی یہ ہے کہ اس طرح کی عمارتوں سے گریز کیا جائے۔ (۲) جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ اتنا قیمتی سامان ہے کہ انسان کا عمل اس کی قیمت نہیں بن سکتا۔ اس لیے ہر صورت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے عمل صالح کی ضرورت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صرف عمل کام نہیں آئیں گے۔ وہ اس وقت کار آمد ہوں گے جب اللہ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال ہوگی۔ (۳) بعض اہل علم کا قول ہے کہ یہ حکم سورۂ فتح کے نزول سے پہلے کا ہے۔ سورۂ فتح میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لیے جنت کی بشارت دے دی۔ (۴) سد دوا....کا مطلب ہے کہ تم سیدھے رہو اور اللہ تعالیٰ سے راہ ہدایت طلب کرتے رہو اور ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو اور غلو سے بچو، نیز دن کے مختلف اوقات اور رات کی تاریکی میں اللہ کی عبادت کرتے رہو کیونکہ سارا دن یا ساری رات عبادت کرنے سے انسان اکتا جاتا ہے اور چند دن عبادت کرکے پھر چھوڑ بیٹھتا ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومة علی العمل:۶۴۶۳۔ ومسلم:۲۸۱۶۔ وابن ماجة:۲۴۰۱۔ انظر الصحیحة:۲۶۰۲۔ (۱)عمارتوں پر نقش و نگار کرنا میانہ روی نہیں بلکہ حد سے تجاوز ہے۔ میانہ روی یہ ہے کہ اس طرح کی عمارتوں سے گریز کیا جائے۔ (۲) جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ اتنا قیمتی سامان ہے کہ انسان کا عمل اس کی قیمت نہیں بن سکتا۔ اس لیے ہر صورت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے عمل صالح کی ضرورت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صرف عمل کام نہیں آئیں گے۔ وہ اس وقت کار آمد ہوں گے جب اللہ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال ہوگی۔ (۳) بعض اہل علم کا قول ہے کہ یہ حکم سورۂ فتح کے نزول سے پہلے کا ہے۔ سورۂ فتح میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لیے جنت کی بشارت دے دی۔ (۴) سد دوا....کا مطلب ہے کہ تم سیدھے رہو اور اللہ تعالیٰ سے راہ ہدایت طلب کرتے رہو اور ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو اور غلو سے بچو، نیز دن کے مختلف اوقات اور رات کی تاریکی میں اللہ کی عبادت کرتے رہو کیونکہ سارا دن یا ساری رات عبادت کرنے سے انسان اکتا جاتا ہے اور چند دن عبادت کرکے پھر چھوڑ بیٹھتا ہے۔