الادب المفرد - حدیث 46

كِتَابُ بَابُ: هَلْ يُكَنِّي أَبَاهُ؟ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي: الْبُخَارِيَّ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَكِنْ أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ قَضَى

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 46

کتاب کیا اپنے باپ کو کنیت سے پکارا جاسکتا ہے؟ حضرت عبداللہ بن دینار سے روایت ہے، وہ ابن عمر سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک بار)فرمایا: ....لیکن ابو حفص (عمر رضی اللہ عنہ )نے (یہ)فیصلہ کیا۔
تشریح : (۱)نام اور لقب کے علاوہ مقرر کردہ ایسا نام جس کے شروع میں اب، ام یا ابن ہو کنیت کہلاتا ہے، جیسے ابو حفص، ابن رشد وغیرہ۔ اہل عرب کے ہاں کنیت رکھنے کا عام رواج تھا حتی کے بے اولاد لوگ بھی اپنے بھانجوں یا بھتیجوں کے نام سے کنیت رکھتے تھے۔ (۲) جب کسی کی عزت مقصود ہو تو اسے اس کے نام اور لقب کی بجائے کنیت سے پکارا جاتا ہے۔ پچھلے اثر میں یہ بات تھی کہ والدین کو نام لے کر نہیں بلانا چاہیے تو اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ کنیت بھی تو ایک نام ہے جس کے ساتھ پکارنے کا ثبوت خیر القرون میں ملتا ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کنیت بھی اگرچہ ایک طرح کا نام ہے، تاہم اس کے ساتھ والدین کو بلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: کہ ابو حفص رضی اللہ عنہ نے اس طرح فیصلہ کیا تھا۔ (۳) مقصود یہ ہے کہ معاشرتی طور پر جو القاب عزت و تکریم کے لیے استعمال ہوتے ہیں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، البتہ اسلامی معاشرت کو رواج دینا اور کفار و مشرکین کی معاشرت کو ترک کرنا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔
تخریج : صحیح۔ (۱)نام اور لقب کے علاوہ مقرر کردہ ایسا نام جس کے شروع میں اب، ام یا ابن ہو کنیت کہلاتا ہے، جیسے ابو حفص، ابن رشد وغیرہ۔ اہل عرب کے ہاں کنیت رکھنے کا عام رواج تھا حتی کے بے اولاد لوگ بھی اپنے بھانجوں یا بھتیجوں کے نام سے کنیت رکھتے تھے۔ (۲) جب کسی کی عزت مقصود ہو تو اسے اس کے نام اور لقب کی بجائے کنیت سے پکارا جاتا ہے۔ پچھلے اثر میں یہ بات تھی کہ والدین کو نام لے کر نہیں بلانا چاہیے تو اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ کنیت بھی تو ایک نام ہے جس کے ساتھ پکارنے کا ثبوت خیر القرون میں ملتا ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کنیت بھی اگرچہ ایک طرح کا نام ہے، تاہم اس کے ساتھ والدین کو بلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: کہ ابو حفص رضی اللہ عنہ نے اس طرح فیصلہ کیا تھا۔ (۳) مقصود یہ ہے کہ معاشرتی طور پر جو القاب عزت و تکریم کے لیے استعمال ہوتے ہیں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، البتہ اسلامی معاشرت کو رواج دینا اور کفار و مشرکین کی معاشرت کو ترک کرنا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔