كِتَابُ بَابُ التَّطَاوُلِ فِي الْبُنْيَانِ وَبِالسَّنَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: رَأَيْتُ الْحُجُرَاتِ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ مَغْشِيًّا مِنْ خَارِجٍ بِمُسُوحِ الشَّعْرِ، وَأَظُنُّ عَرْضَ الْبَيْتِ مِنْ بَابِ الْحُجْرَةِ إِلَى بَابِ الْبَيْتِ نَحْوًا مِنْ سِتِّ أَوْ سَبْعِ أَذْرُعٍ، وَأَحْزِرُ الْبَيْتَ الدَّاخِلَ عَشْرَ أَذْرُعٍ، وَأَظُنُّ سُمْكَهُ بَيْنَ الثَّمَانِ وَالسَّبْعِ نَحْوَ ذَلِكَ، وَوَقَفْتُ عِنْدَ بَابِ عَائِشَةَ فَإِذَا هُوَ مُسْتَقْبِلٌ الْمَغْرِبَ
کتاب
تعمیرات میں مقابلہ بازی کی مذمت
داؤد بن قیس رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:میں نے ازواج مطہرات کے حجرے دیکھے جو کھجور کی ٹہنیوں کے تھے۔ باہر سے انہیں بالوں کے ٹاٹ سے ڈھانکا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ گھر کی چوڑائی حجرے کے دروازے سے لے کر دوسرے گھر کے دروازے تک تقریباً چھ سات ہاتھ تھی۔ اندر سے گھر کا اندازہ لگایا تو دس ہاتھ تھا۔ اس کی چھت آٹھ یا سات ہاتھ کے قریب تھی۔ اور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ مغرب کی طرف تھا۔
تشریح :
حجروں سے مراد اگر ازواج مطہرات کے حجرے ہوں تو ’’سمکہ‘‘ سے مراد چھت کی لمبائی ہوگی کیونکہ اونچائی تو بقول حسن بصری اتنی تھی کہ چھت کو بآسانی ہاتھ لگایا جاسکتا تھا یا پھر اس سے اور حجرے مراد ہوں گے تو اس صورت ’’سمکہ‘‘ سے مراد اونچائی ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے وہ حجرے اونچے ہوں اور بعد ازاں مٹی وغیرہ ڈال کر فرش اونچا کر لیا گیا ہو۔
تخریج :
صحیح:أخرجه ابن أبي الدنیا في قصر الأمل:۲۴۴۔ وأبي داود في المراسیل:۴۹۶۔ والبیهقي في شعب الایمان:۱۰۷۳۵۔
حجروں سے مراد اگر ازواج مطہرات کے حجرے ہوں تو ’’سمکہ‘‘ سے مراد چھت کی لمبائی ہوگی کیونکہ اونچائی تو بقول حسن بصری اتنی تھی کہ چھت کو بآسانی ہاتھ لگایا جاسکتا تھا یا پھر اس سے اور حجرے مراد ہوں گے تو اس صورت ’’سمکہ‘‘ سے مراد اونچائی ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے وہ حجرے اونچے ہوں اور بعد ازاں مٹی وغیرہ ڈال کر فرش اونچا کر لیا گیا ہو۔