الادب المفرد - حدیث 447

كِتَابُ بَابُ النَّفَقَةِ فِي الْبِنَاءِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ خَبَّابٍ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ، إِلَّا الْبِنَاءَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 447

کتاب عمارت بنانے میں خرچ کرنا حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:بلاشبہ آدمی کو ہر چیز کا اجر ضرور ملتا ہے سوائے عمارت کی تعمیر کے۔
تشریح : (۱)انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے جو مال خرچ کیا جائے بندے کو اس پر اجر ملتا ہے کیونکہ جائز ضروریات کو پورا کرنا بھی حکم الٰہی کی تعمیل ہے۔ اسی طرح مکان وغیرہ بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ انسان گرمی اور بارش سے محفوظ رہے لیکن اس میں حد سے تجاوز کرنا اور مقابلہ باری کرنا گناہ ہے اور اس راستے میں خرچ کی گئی دولت نہ صرف اجر و ثواب سے خالی ہوتی بلکہ وبال جان بھی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أمَا اِنَّ کُلَّ بِنَاءٍ وَبَالٌ عَلَی صَاحِبِه اِلاَّ مَا لَا اِلاَّ مالاَ، یَعنِی مَالَا بُدَّ مِنْهُ))(سنن أبي داود، الأدب، حدیث:۵۲۳۷) ’’یقیناً ہر عمارت اپنے مالک کے لیے وبال جان ہے سوائے اس عمارت کے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔‘‘ (۲) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعمیرات کے طرز میں تبدیلی ہوتی چلی گئی اور پختہ مکانات لوگوں کی ضرورت بن گئی۔ ایسی صورت میں پختہ مساجد بھی باتفاق علماء جائز ٹھہریں تاہم اس میں سادگی کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه الترمذي، کتاب صفة القیامة:۲۴۸۳۔ وابن ماجة:۴۱۶۳۔ والطبراني في الکبیر:۴؍ ۷۲۔ انظر الصحیحة:۲۸۳۱۔ (۱)انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے جو مال خرچ کیا جائے بندے کو اس پر اجر ملتا ہے کیونکہ جائز ضروریات کو پورا کرنا بھی حکم الٰہی کی تعمیل ہے۔ اسی طرح مکان وغیرہ بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ انسان گرمی اور بارش سے محفوظ رہے لیکن اس میں حد سے تجاوز کرنا اور مقابلہ باری کرنا گناہ ہے اور اس راستے میں خرچ کی گئی دولت نہ صرف اجر و ثواب سے خالی ہوتی بلکہ وبال جان بھی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أمَا اِنَّ کُلَّ بِنَاءٍ وَبَالٌ عَلَی صَاحِبِه اِلاَّ مَا لَا اِلاَّ مالاَ، یَعنِی مَالَا بُدَّ مِنْهُ))(سنن أبي داود، الأدب، حدیث:۵۲۳۷) ’’یقیناً ہر عمارت اپنے مالک کے لیے وبال جان ہے سوائے اس عمارت کے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔‘‘ (۲) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعمیرات کے طرز میں تبدیلی ہوتی چلی گئی اور پختہ مکانات لوگوں کی ضرورت بن گئی۔ ایسی صورت میں پختہ مساجد بھی باتفاق علماء جائز ٹھہریں تاہم اس میں سادگی کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔