الادب المفرد - حدیث 441

كِتَابُ بَابُ شَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ سُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 441

کتاب دشمنوں کا خوش ہونا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم برے فیصلے اور دشمنوں کے ہنسنے سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔
تشریح : (۱)برے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کو برا لگے اور اسے پریشان کر دے۔ وہ فیصلہ دین کے بارے میں ہو یا دنیا کے بارے میں یا اہل و عیال کے بارے میں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور تقدیر پر ایمان کے منافي نہیں ہے۔ یاد رہے کہ شر اور برائی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہے، یہ بندوں کی نسبت سے شر ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ تقدیر کے فیصلے کو کیسے ٹالا جاسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دعا کرنا اور استعاذہ طلب کرنا بھی تقدیر کا حصہ ہوگا اور اس کا مقصد بندے کا اپنے بے بس ہونے کا اظہار کرنا ہے۔ (۲) دشمنوں کے ہنسنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی ایسی حالت سے دو چار ہو کہ دشمن اسے دیکھ کر خوش ہو۔ ایسی حالت سے دو چار ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ انسان مصیبت سے نفرت کرتا ہے لیکن ایسی تکلیف اس کے لیے نہایت اذیت ناک ہوتی ہے جس سے اس کے مخالفین بغلیں بجائیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الدعوات، باب التعوذ من جهد البلاء:۶۳۴۷۔ ومسلم:۷۰۵۲۔ والنسائي:۵۴۹۱۔ انظر الصحیحة:۱۵۴۱۔ (۱)برے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کو برا لگے اور اسے پریشان کر دے۔ وہ فیصلہ دین کے بارے میں ہو یا دنیا کے بارے میں یا اہل و عیال کے بارے میں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور تقدیر پر ایمان کے منافي نہیں ہے۔ یاد رہے کہ شر اور برائی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہے، یہ بندوں کی نسبت سے شر ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ تقدیر کے فیصلے کو کیسے ٹالا جاسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دعا کرنا اور استعاذہ طلب کرنا بھی تقدیر کا حصہ ہوگا اور اس کا مقصد بندے کا اپنے بے بس ہونے کا اظہار کرنا ہے۔ (۲) دشمنوں کے ہنسنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی ایسی حالت سے دو چار ہو کہ دشمن اسے دیکھ کر خوش ہو۔ ایسی حالت سے دو چار ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ انسان مصیبت سے نفرت کرتا ہے لیکن ایسی تکلیف اس کے لیے نہایت اذیت ناک ہوتی ہے جس سے اس کے مخالفین بغلیں بجائیں۔