الادب المفرد - حدیث 44

كِتَابُ بَابُ لَا يُسَمِّي الرَّجُلُ أَبَاهُ، وَلَا يَجْلِسُ قَبْلَهُ، وَلَا يَمْشِي أَمَامَهُ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ زَكَرِيَّا قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ , أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَبْصَرَ رَجُلَيْنِ، فَقَالَ لِأَحَدِهِمَا: مَا هَذَا مِنْكَ؟ فَقَالَ: أَبِي، فَقَالَ: لَا تُسَمِّهِ بِاسْمِهِ، وَلَا تَمْشِ أَمَامَهُ، وَلَا تَجْلِسْ قَبْلَهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 44

کتاب کوئی آدمی اپنے باپ کو نام لے کر نہ بلائے، اور نہ اس سے پہلے بیٹھے اور نہ اس کے آگے چلے حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دو آدمی کو (اکٹھا)دیکھا تو ایک سے دریافت کیا: اس دوسرے شخص سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟ اس نے کہا: یہ میرے والد ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہیں نام لے کر مت بلاؤ اور نہ ان کے آگے چلو اور نہ ان کے بیٹھنے سے پہلے (مجلس میں)بیٹھو۔
تشریح : (۱)با ادب بامراد، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ادب کے سب سے زیادہ مستحق انسان کے والدین ہیں۔ ادب و احترام زبان و عمل اور دل سے کرنا ضروری ہے۔ اہل عرب کے ہاں نام سے پکارنا خلاف ادب سمجھا جاتا تھا اور عزت و تکریم کے لیے کنیت کے ساتھ پکارتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں بھی والدین کا نام لے کر بلانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ والدین کو ابا جان اور امی جان کہہ کر پکارا جائے۔ (۲) ادب کا تقاضا ہے کہ بڑوں کے پیچھے چلا جائے اور کسی لحاظ سے بھی ان سے آگے نہ بڑھا جائے اس لیے چلتے وقت والدین کے پیچھے چلنا چاہیے، البتہ ضرورت کے وقت، یا والدین کے حکم پر آگے چلنا بھی جائز ہے۔ (۳) تیسری بات یہ بتائی کہ اگر آپ والدین کے ساتھ کسی مجلس میں جاتے ہیں تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے والدین کو بیٹھنے کی جگہ دی جائے اور اس کے بعد خود بیٹھا جائے کیونکہ عموماً نوجوان تو جگہ تلاش کر ہی لیتے ہیں اور بزرگوں کے لیے مسئلہ بنتا ہے۔ (۴) اسی طرح گاڑی میں بھی والدین کو فرنٹ سیٹ پر بٹھانا چاہیے اور جتنی زیادہ والدین کی تکریم ہوسکے کرنی چاہیے۔ کھانے پینے، لباس، بستر وغیرہ ہر چیز میں والدین کو مقدم رکھنا چاہیے۔ (۵) علماء اور بزرگوں کو چاہیے کہ موقع بہ موقع لوگوں کی اخلاقی تربیت کرتے رہیں۔ اجنبی یا آشنا کا فرق کیے بغیر لوگوں کو نور ہدایت سے روشناس کراتے رہیں۔
تخریج : صحیح: مجمع: ۸؍ ۱۳۷۔ سني: ۲۸۹۔ (۱)با ادب بامراد، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ادب کے سب سے زیادہ مستحق انسان کے والدین ہیں۔ ادب و احترام زبان و عمل اور دل سے کرنا ضروری ہے۔ اہل عرب کے ہاں نام سے پکارنا خلاف ادب سمجھا جاتا تھا اور عزت و تکریم کے لیے کنیت کے ساتھ پکارتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں بھی والدین کا نام لے کر بلانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ والدین کو ابا جان اور امی جان کہہ کر پکارا جائے۔ (۲) ادب کا تقاضا ہے کہ بڑوں کے پیچھے چلا جائے اور کسی لحاظ سے بھی ان سے آگے نہ بڑھا جائے اس لیے چلتے وقت والدین کے پیچھے چلنا چاہیے، البتہ ضرورت کے وقت، یا والدین کے حکم پر آگے چلنا بھی جائز ہے۔ (۳) تیسری بات یہ بتائی کہ اگر آپ والدین کے ساتھ کسی مجلس میں جاتے ہیں تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے والدین کو بیٹھنے کی جگہ دی جائے اور اس کے بعد خود بیٹھا جائے کیونکہ عموماً نوجوان تو جگہ تلاش کر ہی لیتے ہیں اور بزرگوں کے لیے مسئلہ بنتا ہے۔ (۴) اسی طرح گاڑی میں بھی والدین کو فرنٹ سیٹ پر بٹھانا چاہیے اور جتنی زیادہ والدین کی تکریم ہوسکے کرنی چاہیے۔ کھانے پینے، لباس، بستر وغیرہ ہر چیز میں والدین کو مقدم رکھنا چاہیے۔ (۵) علماء اور بزرگوں کو چاہیے کہ موقع بہ موقع لوگوں کی اخلاقی تربیت کرتے رہیں۔ اجنبی یا آشنا کا فرق کیے بغیر لوگوں کو نور ہدایت سے روشناس کراتے رہیں۔