الادب المفرد - حدیث 438

كِتَابُ بَابُ مَنْ قَالَ لِآخَرَ: يَا مُنَافِقُ، فِي تَأْوِيلٍ تَأَوَّلَهُ حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَكِلَانَا فَارِسٌ، فَقَالَ: ((انْطَلِقُوا حَتَّى تَبْلُغُوا رَوْضَةَ كَذَا وَكَذَا، وَبِهَا امْرَأَةٌ مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبٍ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَأْتُونِي بِهَا)) ، فَوَافَيْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا حَيْثُ وَصَفَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَبَحَثْنَاهَا وَبَعِيرَهَا، فَقَالَ صَاحِبِي: مَا أَرَى، فَقُلْتُ: مَا كَذَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأُجَرِّدَنَّكِ أَوْ لَتُخْرِجِنَّهُ، فَأَهْوَتْ بِيَدِهَا إِلَى حُجْزَتِهَا وَعَلَيْهَا إِزَارٌ صُوفٌ، فَأَخْرَجَتْ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، وَقَالَ: ((مَا حَمَلَكَ؟)) فَقَالَ: مَا بِي إِلَّا أَنْ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ، وَأَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ، قَالَ: " صَدَقَ يَا عُمَرُ، أَوَ لَيْسَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ "، فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 438

کتاب جس نے اپنی تاویل اور سمجھ کی بنا پر کسی کو منافق کہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ہم دونوں گھڑ سوار تھے۔ آپ نے فرمایا:’’چلتے رہو یہاں تک کہ تم فلاں فلاں جگہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا مشرکین کے نام خط ہے۔ اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘ ہم نے اسے اس حال میں جا پکڑا کہ وہ اپنے اسی طرح کے اونٹ پر سوار تھی جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا۔ ہم نے کہا:تیرے پاس جو خط ہے وہ نکالو۔ اس نے کہا:میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کی اور اس کے اونٹ کی تلاشی لی (تو کچھ نہ ملا)میرے ساتھی نے کہا:میرا خیال ہے اس کے پاس نہیں ہے۔ میں نے کہا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ نہیں بولا۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے خط نکالو ورنہ میں تجھے ننگا کر دوں گا۔ اس نے اپنے ازار باندھنے کی جگہ (نیفہ)کی طرف ہاتھ بڑھایا اور خط نکال دیا۔ اس پر اون کا تہبند تھا۔ چنانچہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اس نے اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(حاطب!)تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ تب انہوں (حضرت حاطب رضی اللہ عنہ )نے کہا:میرے دل میں اللہ تعالیٰ پر ایمان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میرا صرف یہ مقصد تھا کہ میرا ان لوگوں (مشرکین)پر احسان ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’عمر! اس نے سچ کہا ہے۔ کیا یہ بدر میں شریک نہیں تھا؟ اللہ تعالیٰ کو سب بدر والوں کا حال معلوم ہے اس لیے ان کے بارے میں فرمایا:تم جو چاہو عمل کرو یقیناً تمہارے لیے جنت واجب ہو گئی ہے۔‘‘ (یہ سن کر)حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہا:اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
تشریح : (۱)بعض روایات میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یہی الفاظ امام بخاری کا استدلال ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس کا عمل دیکھ اپنی سوچ کے مطابق منافق کہتا ہے تو وہ قابل گرفت نہیں ہے، تاہم اس کی اصلاح کی جائے گی۔ (۲) حضرت حاطب رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ وہ بدر میں شریک ہوئے اور مہاجر بھی تھے۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والوں کے عزیز و اقارب وہاں موجود تھے جو ان کے بیوی بچوں کا دفاع کرتے تھے لیکن حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا قبیلہ وہاں نہیں تھا۔ انہوں نے سوچا کہ مکہ والوں پر کوئی احسان کر دوں تاکہ وہ میرے بچوں کا خیال رکھیں۔ رہا مسئلہ جنگ کا تو اللہ تعالیٰ ہر صورت اپنے رسول کو غالب کرے گا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ جاسوس وغیرہ سے راز اگلوانے کے لیے سختی کی جاسکتی ہے اور سیکورٹی تحفظات کے پیش نظر جامہ تلاشی لی جاسکتی ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الجهاد والسیر:۳۰۰۷، ۳۰۸۱۔ ومسلم:۲۴۹۴۔ وأبي داود:۲۶۵۱۔ والترمذي:۳۳۰۵ والنسائي في الکبریٰ:۱۱۵۲۱۔ (۱)بعض روایات میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یہی الفاظ امام بخاری کا استدلال ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس کا عمل دیکھ اپنی سوچ کے مطابق منافق کہتا ہے تو وہ قابل گرفت نہیں ہے، تاہم اس کی اصلاح کی جائے گی۔ (۲) حضرت حاطب رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ وہ بدر میں شریک ہوئے اور مہاجر بھی تھے۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والوں کے عزیز و اقارب وہاں موجود تھے جو ان کے بیوی بچوں کا دفاع کرتے تھے لیکن حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا قبیلہ وہاں نہیں تھا۔ انہوں نے سوچا کہ مکہ والوں پر کوئی احسان کر دوں تاکہ وہ میرے بچوں کا خیال رکھیں۔ رہا مسئلہ جنگ کا تو اللہ تعالیٰ ہر صورت اپنے رسول کو غالب کرے گا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ جاسوس وغیرہ سے راز اگلوانے کے لیے سختی کی جاسکتی ہے اور سیکورٹی تحفظات کے پیش نظر جامہ تلاشی لی جاسکتی ہے۔