الادب المفرد - حدیث 436

كِتَابُ بَابُ مَنْ لَمْ يُوَاجِهِ النَّاسَ بِكَلَامِهِ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَرَخَّصَ فِيهِ، فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ قَالَ: ((مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ؟ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 436

کتاب جس نے لوگوں سے منہ در منہ بات نہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا اور لوگوں کو بھی وہ کام کرنے کی رخصت دی تو کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد فرمایا:’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسا کام کرنے سے بچتے ہیں جو میں نے کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘
تشریح : (۱)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی آدمی کے حوالے سے کوئی بات معلوم ہوتی تو آپ اس کا نام لیے بغیر اجتماعی طور پر مسئلہ سمجھا دیتے اور فرماتے:فلاں کا کیا مسئلہ ہے یا لوگوں کو کیا ہے (کہ وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں)(سنن أبي داود، الادب، حدیث:۴۷۸۸)اس سے معلوم ہوا کہ منہ در منہ بات کرنے کے بجائے مجموعی طور پر بات کرنی چاہیے تاکہ کسی کو شرمندگی بھی نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح بھی کرے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متقی بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ جس کو شریعت نے کرنے کی اجازت دی ہے انسان اس کو نہ کرے۔ نیکی صرف وہ ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیکی قرار دیں۔ (۳) جس چیز کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دیا ہو اس کے کرنے سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ چیز قابل احتراز ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس سے احتراز کرنے والے ہوتے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب:۶۱۰۱۔ ومسلم:۲۳۵۶۔ والنسائي في الکبریٰ:۹۹۹۲۔ (۱)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی آدمی کے حوالے سے کوئی بات معلوم ہوتی تو آپ اس کا نام لیے بغیر اجتماعی طور پر مسئلہ سمجھا دیتے اور فرماتے:فلاں کا کیا مسئلہ ہے یا لوگوں کو کیا ہے (کہ وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں)(سنن أبي داود، الادب، حدیث:۴۷۸۸)اس سے معلوم ہوا کہ منہ در منہ بات کرنے کے بجائے مجموعی طور پر بات کرنی چاہیے تاکہ کسی کو شرمندگی بھی نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح بھی کرے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متقی بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ جس کو شریعت نے کرنے کی اجازت دی ہے انسان اس کو نہ کرے۔ نیکی صرف وہ ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیکی قرار دیں۔ (۳) جس چیز کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دیا ہو اس کے کرنے سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ چیز قابل احتراز ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس سے احتراز کرنے والے ہوتے۔