كِتَابُ بَابُ الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْأَوَّلِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا، فَعَلَى الْبَادِئِ، حَتَّى يَعْتَدِيَ الْمَظْلُومُ))
کتاب
دو گالی گلوچ کرنے والوں کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دو باہم گالم گلوچ کرنے والوں کی گالیوں کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے حتی کہ مظلوم زیادتی کرے۔‘‘
تشریح :
(۱)مسلمان کو گالی دینا حرام ہے جسے حدیث میں فسق و فجور سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ ایک حدیث میں لڑائی کے وقت گالم گلوچ منافقت کی علامت قرار دی گئی ہے، اس لیے گالیوں سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہیے۔
(۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بدلہ اور انتقام لینا جائز ہے، تاہم زیادتی کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ اگر کوئی شخص معاف کر دے تو وہ نہایت فضیلت والا کام ہے۔
(۳) اصل مجرم برائی کا آغاز کرنے والا ہے، تاہم ہر ایک کو اس کی برائی کا بدلہ ملے گا۔ اگر کوئی شخص کسی کو اتنا زیادہ تنگ کرتا ہے کہ وہ گالیوںپر اتر آتا ہے تو گالیوں پر ابھارنے والا بھی مجرم ہوگا۔
تخریج :
حسن صحیح:أخرجه الطبراني في مسند الشامین:۲۴۸۔ وأبي یعلی:۴۲۴۳۔ والخرائطي في مساوي الاخلاق:۳۳۔ والقضاعي في مسند الشهاب:۳۲۹۔ وانظر الصحیحة:۵۷۰۔
(۱)مسلمان کو گالی دینا حرام ہے جسے حدیث میں فسق و فجور سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ ایک حدیث میں لڑائی کے وقت گالم گلوچ منافقت کی علامت قرار دی گئی ہے، اس لیے گالیوں سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہیے۔
(۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بدلہ اور انتقام لینا جائز ہے، تاہم زیادتی کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ اگر کوئی شخص معاف کر دے تو وہ نہایت فضیلت والا کام ہے۔
(۳) اصل مجرم برائی کا آغاز کرنے والا ہے، تاہم ہر ایک کو اس کی برائی کا بدلہ ملے گا۔ اگر کوئی شخص کسی کو اتنا زیادہ تنگ کرتا ہے کہ وہ گالیوںپر اتر آتا ہے تو گالیوں پر ابھارنے والا بھی مجرم ہوگا۔