الادب المفرد - حدیث 419

كِتَابُ بَابُ السِّبَابِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أُمَيَّةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبَّ أَحَدُهُمَا وَالْآخَرُ سَاكِتٌ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، ثُمَّ رَدَّ الْآخَرُ. فَنَهَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ: نَهَضْتَ؟ قَالَ: ((نَهَضَتِ الْمَلَائِكَةُ فَنَهَضْتُ مَعَهُمْ، إِنَّ هَذَا مَا كَانَ سَاكِتًا رَدَّتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى الَّذِي سَبَّهُ، فَلَمَّا رَدَّ نَهَضَتِ الْمَلَائِكَةُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 419

کتاب گالیاں بکنے کی ممانعت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دو آدمیوں نے گالم گلوچ کیا۔ ان میں سے ایک نے گالی دی اور دوسرا خاموش رہا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ پھر دوسرے شخص نے بھی جواب دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر چل دیے۔ آپ سے عرض کیا گیا آپ اٹھ گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فرشتے اٹھ کر چلے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ یہ شخص جب تک خاموش تھا تو گالیاں دینے والے کو فرشتے جواب دے رہے تھے جب اس نے جواب دیا تو فرشتے اٹھ کر چلے گئے۔‘‘
تشریح : اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم برائی کا جواب برائی کے بجائے اچھائی سے دینا افضل ہے جیسا کہ سنن ابی داؤد (۴۸۹۶)میں صحیح سند سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک شخص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اذیت پہنچائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے، پھر دوسری مرتبہ اس نے اذیت دی تو تب بھی وہ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ اس نے اذیت دی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیا اور بدلہ لے لیا۔ جب انہوں نے بدلہ لیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر چلے گئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آسمان سے ایک فرشتہ اتر کر اس کی اس بات کی تکذیب کر رہا تھا جو اس نے تمہارے بارے میں کہی تھی۔ جب تم نے انتقام لیا تو درمیان میں شیطان کود پڑا تو جب شیطان کود پڑا تو میں کیسے بیٹھ سکتا تھا۔‘‘ (الصحیحة للالباني، حدیث:۲۳۷۶)
تخریج : ضعیف:انظر الضعیفة:۲۹۲۳۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم برائی کا جواب برائی کے بجائے اچھائی سے دینا افضل ہے جیسا کہ سنن ابی داؤد (۴۸۹۶)میں صحیح سند سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک شخص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اذیت پہنچائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے، پھر دوسری مرتبہ اس نے اذیت دی تو تب بھی وہ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ اس نے اذیت دی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیا اور بدلہ لے لیا۔ جب انہوں نے بدلہ لیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر چلے گئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آسمان سے ایک فرشتہ اتر کر اس کی اس بات کی تکذیب کر رہا تھا جو اس نے تمہارے بارے میں کہی تھی۔ جب تم نے انتقام لیا تو درمیان میں شیطان کود پڑا تو جب شیطان کود پڑا تو میں کیسے بیٹھ سکتا تھا۔‘‘ (الصحیحة للالباني، حدیث:۲۳۷۶)