الادب المفرد - حدیث 41

كِتَابُ بَابُ بِرِّ مِنْ كَانَ يَصِلُهُ أَبُوهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 41

کتاب والد کے تعلق داروں سے اچھا برتاؤ کرنا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’سب سے بڑا حسن سلوک یہ ہے کہ باپ کے دوستوں سے حسن سلوک کیا جائے۔‘‘
تشریح : (۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن سلوک کے کئی مراتب ہیں اور ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ والدین کی وفات کے بعد یا ان کی عدم موجودگی میں ان کے دوستوں اور ملنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اسے افضل حسن سلوک اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ زندہ آدمی کے شرم و حیا کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر فوت شدہ کے ساتھ اس طرح کا حیا نہیں کیا جاتا اور اگر کوئی شخص کسی کے فوت ہونے کے بعد بھی اس کے تعلق داروں کا خیال رکھتا ہے تو یہ واقعی سب سے بڑا حسن سلوک ہے۔ (۲) والدین کے ساتھ ان کے فوت ہونے کے بعد حسن سلوک کی صورت یہ ہے کہ جن امور خیر کو وہ بجا لاتے تھے انہیں جاری رکھا جائے اور جن لوگوں سے وہ تعاون کرتے رہے ہوں ان سے تعاون کیا جائے۔
تخریج : صحیح: أخرجه مسلم، البر والصلة والأدب: ۲۵۵۲۔ وابي داود: ۵۱۴۳۔ والترمذي: ۱۹۰۳۔ الصحیحة: ۱۴۳۲، ۳۰۶۳۔ (۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن سلوک کے کئی مراتب ہیں اور ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ والدین کی وفات کے بعد یا ان کی عدم موجودگی میں ان کے دوستوں اور ملنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ اسے افضل حسن سلوک اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ زندہ آدمی کے شرم و حیا کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر فوت شدہ کے ساتھ اس طرح کا حیا نہیں کیا جاتا اور اگر کوئی شخص کسی کے فوت ہونے کے بعد بھی اس کے تعلق داروں کا خیال رکھتا ہے تو یہ واقعی سب سے بڑا حسن سلوک ہے۔ (۲) والدین کے ساتھ ان کے فوت ہونے کے بعد حسن سلوک کی صورت یہ ہے کہ جن امور خیر کو وہ بجا لاتے تھے انہیں جاری رکھا جائے اور جن لوگوں سے وہ تعاون کرتے رہے ہوں ان سے تعاون کیا جائے۔