كِتَابُ بَابُ الْمُهْتَجِرَيْنِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ))
کتاب
ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے والوں کا بیان
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔ اس طرح کہ جب دونوں ملیں تو یہ منہ ادھر کرے اور یہ (دوسرا)ادھر کرے۔ اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔‘‘
تشریح :
قطع تعلق کبھی ایک طرف سے ہوتا ہے اور کبھی دونوں فریق اس میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ یہ قطع تعلقی کی بدترین صورت ہے۔ سلام میں پہل کرنے والا افضل اور بہتر ہے اور اس کے تین بار سلام کہنے کے بعد دوسرا اگر جواب نہیں دیتا تو وہ سلام کرنے والے کا گناہ بھی اپنے سر لے لیتا ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب:۶۰۷۷، ۶۲۳۷۔ ومسلم:۲۵۶۰۔ وأبي داود:۴۹۱۱۔ والترمذي:۱۹۳۲۔ انظر الإرواء:۲۰۲۹۔
قطع تعلق کبھی ایک طرف سے ہوتا ہے اور کبھی دونوں فریق اس میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ یہ قطع تعلقی کی بدترین صورت ہے۔ سلام میں پہل کرنے والا افضل اور بہتر ہے اور اس کے تین بار سلام کہنے کے بعد دوسرا اگر جواب نہیں دیتا تو وہ سلام کرنے والے کا گناہ بھی اپنے سر لے لیتا ہے۔