كِتَابُ بَابُ بِرِّ مِنْ كَانَ يَصِلُهُ أَبُوهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: مَرَّ أَعْرَابِيٌّ فِي سَفَرٍ، فَكَانَ أَبُو الْأَعْرَابِيِّ صَدِيقًا لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ: أَلَسْتَ ابْنَ فُلَانٍ؟ قَالَ: بَلَى، فَأَمَرَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ بِحِمَارٍ كَانَ يَسْتَعْقِبُ، وَنَزَعَ عِمَامَتَهُ عَنْ رَأْسِهِ فَأَعْطَاهُ. فَقَالَ بَعْضُ مَنْ مَعَهُ: أَمَا يَكْفِيهِ دِرْهَمَانِ؟ فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((احْفَظْ وُدَّ أَبِيكَ، لَا تَقْطَعْهُ فَيُطْفِئَ اللَّهُ نُورَكَ))
کتاب
والد کے تعلق داروں سے اچھا برتاؤ کرنا
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک اعرابی کسی سفر میں (میرے)قریب سے گزرا۔ اس اعرابی کا باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا، تو اس نے اعرابی کو کہا: کیا تم فلاں کے بیٹے نہیں ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ پھر ابن عمر نے اسے (اس پہچان کی وجہ سے)ایک گدھا دینے کا حکم دیا۔ اور اپنے سر سے پگڑی اتار کر بھی اسے دے دی۔ آپ کے بعض ہم سفروں نے عرض کیا: اس کو دو درہم دے دینے کافی نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اپنے والد کی دوستی کا خیال رکھو، اس کو مت توڑو ورنہ اللہ تمہارا نور بجھا دے گا۔‘‘
تشریح :
(۱)یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ضعیف ہے، البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قصہ مرفوع الفاظ کے بغیر دیگر صحیح اسناد سے ثابت ہے۔ صحیح مسلم میں یہ واقعہ اس طرح ہے:
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب وہ مکہ جاتے تو ان کے پاس اونٹ کے علاوہ ایک گدھا بھی ہوتا۔ جب وہ اونٹ پر سواری کرکے تھک جاتے تو گدھے پر سوار ہو جاتے اور ایک عمامہ بھی ہوتا جسے باندھتے۔ ایک دن وہ گدھے پر سوار ہوکر جا رہے تھے کہ ایک اعرابی کا وہاں سے گزر ہوا تو اس (ابن عمر)نے کہا: آپ فلاں بن فلاں، نہیں ہیں۔ اس نے کہا: ہاں تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا گدھا اسے دے دیا اور کہا: اس پر سوار ہو جاؤ۔ اور عمامہ بھی اتار کر دے دیا کہ اسے سر پر باندھ لو۔ آپ کے بعض ہم سفر ساتھی کہنے لگے: اللہ آپ کی مغفرت فرمائے آپ نے اس اعرابی کو گدھا بھی دے دیا اور عمامہ بھی حالانکہ آپ آرام کرنے کے لیے گدھے پر سواری کرتے تھے اور عمامہ آپ سر پر باندھتے تھے۔ تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’(والدین سے)سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ والد کے فوت ہونے کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کی جائے۔‘‘ اور اس اعرابی کا باب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔ (صحیح مسلم، البر والصلة، باب فضل صلة أصدقاء الأب والأم....حدیث: ۲۵۵۲)
(۲) ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اثر سے معلوم ہوا کہ آدمی ایک سے زیادہ سواریاں رکھ سکتا ہے اور یہ فضول خرچی کے زمرے میں نہیں آتا۔
(۳) سلف صالحین اپنا سر ڈھانک کر رکھتے تھے اس لیے ننگے سر رہنے کی عادت بنا لینا غیر پسندیدہ عمل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک بھی سر پر کپڑا رکھنے کی تھی۔ البتہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سر سے کپڑا اتار کر سفر کرنا بھی جائز ہے اور یہ مروء ت کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عمامہ اتار کر اعرابی کو دیا تو ان کا سر یقیناً ننگا ہوگیا ہوگا۔ اور ان کا سفر جاری تھا۔
(۴) افضل طریقہ یہ ہے کہ جب کسی سے تعارف کیا جائے تو اس کا نام اور اس کے والد اور خاندان کا نام دریافت کرلیا جائے۔
(۵) کسی دوست کو یہ کہنا کہ فلاں چیز صدقہ کر دو اور فلاں نہ کرو یا اتنا زیادہ نہ کرو، جائز امر ہے اور ایسا کہنا نیکی سے روکنے کے زمرے میں نہیں آتا، بالخصوص جب نیت یہ ہو کہ صدقہ کرنے والے کو خود بھی اس کی ضرورت ہے۔
(۶) اگر کسی شخص کے پاس زائد از ضرورت سواری یا گاڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کے پاس بالکل نہ ہو تو اسے سوار ہونے کے لیے یا مستقل طور پر دینا نہایت قابل تعریف کام ہے جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کیا۔
تخریج :
ضعیف: أخرجه أحمد فی المسند: ۵؍ ۳۔ زیادة من شعب الایمان للبیهقي: ۷۸۹۸۔ والطبراني الکبیر: ۱۱؍ ۳۹۴۔ ومسلم: ۲۵۵۲۔ الضعیفة: ۲۰۸۹۔
(۱)یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ضعیف ہے، البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قصہ مرفوع الفاظ کے بغیر دیگر صحیح اسناد سے ثابت ہے۔ صحیح مسلم میں یہ واقعہ اس طرح ہے:
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب وہ مکہ جاتے تو ان کے پاس اونٹ کے علاوہ ایک گدھا بھی ہوتا۔ جب وہ اونٹ پر سواری کرکے تھک جاتے تو گدھے پر سوار ہو جاتے اور ایک عمامہ بھی ہوتا جسے باندھتے۔ ایک دن وہ گدھے پر سوار ہوکر جا رہے تھے کہ ایک اعرابی کا وہاں سے گزر ہوا تو اس (ابن عمر)نے کہا: آپ فلاں بن فلاں، نہیں ہیں۔ اس نے کہا: ہاں تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا گدھا اسے دے دیا اور کہا: اس پر سوار ہو جاؤ۔ اور عمامہ بھی اتار کر دے دیا کہ اسے سر پر باندھ لو۔ آپ کے بعض ہم سفر ساتھی کہنے لگے: اللہ آپ کی مغفرت فرمائے آپ نے اس اعرابی کو گدھا بھی دے دیا اور عمامہ بھی حالانکہ آپ آرام کرنے کے لیے گدھے پر سواری کرتے تھے اور عمامہ آپ سر پر باندھتے تھے۔ تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’(والدین سے)سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ والد کے فوت ہونے کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کی جائے۔‘‘ اور اس اعرابی کا باب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔ (صحیح مسلم، البر والصلة، باب فضل صلة أصدقاء الأب والأم....حدیث: ۲۵۵۲)
(۲) ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اثر سے معلوم ہوا کہ آدمی ایک سے زیادہ سواریاں رکھ سکتا ہے اور یہ فضول خرچی کے زمرے میں نہیں آتا۔
(۳) سلف صالحین اپنا سر ڈھانک کر رکھتے تھے اس لیے ننگے سر رہنے کی عادت بنا لینا غیر پسندیدہ عمل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک بھی سر پر کپڑا رکھنے کی تھی۔ البتہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سر سے کپڑا اتار کر سفر کرنا بھی جائز ہے اور یہ مروء ت کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عمامہ اتار کر اعرابی کو دیا تو ان کا سر یقیناً ننگا ہوگیا ہوگا۔ اور ان کا سفر جاری تھا۔
(۴) افضل طریقہ یہ ہے کہ جب کسی سے تعارف کیا جائے تو اس کا نام اور اس کے والد اور خاندان کا نام دریافت کرلیا جائے۔
(۵) کسی دوست کو یہ کہنا کہ فلاں چیز صدقہ کر دو اور فلاں نہ کرو یا اتنا زیادہ نہ کرو، جائز امر ہے اور ایسا کہنا نیکی سے روکنے کے زمرے میں نہیں آتا، بالخصوص جب نیت یہ ہو کہ صدقہ کرنے والے کو خود بھی اس کی ضرورت ہے۔
(۶) اگر کسی شخص کے پاس زائد از ضرورت سواری یا گاڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کے پاس بالکل نہ ہو تو اسے سوار ہونے کے لیے یا مستقل طور پر دینا نہایت قابل تعریف کام ہے جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کیا۔