كِتَابُ بَابُ بِرِّ الْأُمِّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنِّي خَطَبْتُ امْرَأَةً، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَنِي، وَخَطَبَهَا غَيْرِي، فَأَحَبَّتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَغِرْتُ عَلَيْهَا فَقَتَلْتُهَا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: أُمُّكَ حَيَّةٌ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: تُبْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَقَرَّبْ إِلَيْهِ مَا اسْتَطَعْتَ. فَذَهَبْتُ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: لِمَ سَأَلْتَهُ عَنْ حَيَاةِ أُمِّهِ؟ فَقَالَ: إِنِّي لَا أَعْلَمُ عَمَلًا أَقْرَبَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ بِرِّ الْوَالِدَةِ
کتاب
والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت کو پیغامِ نکاح بھیجا تو اس نے مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کردیا۔ پھر میرے علاوہ کسی اور نے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے رضامندی کا اظہار کردیا۔ مجھے اس پر غیرت آگئی اور میں نے اسے قتل کردیا۔ کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے)فرمایا: کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ سے توبہ کر اور جتنا ہوسکتا ہے (اعمالِ صالحہ وغیرہ سے)اللہ کا قرب حاصل کر (راوی حدیث حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں)میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے عرض کی: آپ نے اس سے اس کی ماں کے زندہ ہونے کا سوال کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: میرے علم میں والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
تشریح :
۱۔ غیرت انسان کی فطرت میں شامل ہے اور بسااوقات یہ ممدوح ہوتی ہے جس طرح آدمی کا اپنا اہل و عیال پر غیرت کرنا، اور اگر نہ کرے تو وہ دیوث ہوجاتا ہے لیکن بسااوقات مذموم اور قابل سزا ہوتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ذکر کیاگیا ہے، اس لیے کہ عورت کواختیار ہے کہ جس کا چاہے پیغامِ نکاح قبول کرے اور جس کا چاہے ردّ کردے اور ایسا بغیر وجہ کے بھی کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ اس حدیث سے غیرت کے خطرناک نتائج کا بھی علم ہوتا ہے کہ یہ انسان کو غیبت، حسد، کینہ اور بغض جیسے گناہوں میں ملوث کردیتی ہے حتی کہ انسان قتل جیسا قبیح فعل بھی کر بیٹھتا ہے۔
۳۔ قتل گناہ کبیرہ ہے لیکن اگر کسی انسان سے سرزد ہوجائے تو اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اگر وہ سچے دل سے توبہ کرنا چاہتا ہے۔ اور توبہ کا مطلب یہ ہے وہ اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ ہو لیکن یاد رہے کہ دیت بہر صورت ادا کرنا پڑے گی الاَّ یہ کہ ورثاء معاف کردیں۔
۴۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ بھی ہوجائے تو اللہ سے ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ فوراً معافی مانگ لینی چاہیے، اللہ اپنی بے پایاں رحمت سے معاف فرمادے گا۔
۵۔ عالم کو چاہیے کہ سائل کو کبھی مایوس نہ کرے بلکہ اسے توبہ کا بہترین رستہ بتائے اور کسی ایسے عمل کی طرف رہنمائی کرے جو اس کے اس گناہ کا کفارہ بن جائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ناامید ہوگیا تو ممکن ہے وہ مزید سرکشی اور گناہ میں مبتلا ہوجائے جیسا کہ بنی اسرائیل کے سو آدمیوں کے قاتل کا واقعہ ہے کہ ننانوے قتل کرکے جب اس نے کسی آدمی سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: تیری کوئی توبہ نہیں۔ تو اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ (بخاری)
۶۔ اعمال صالحہ گناہوں کو ختم کردیتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ﴾
لیکن علماء میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ کبیرہ گناہ بھی ختم ہوجاتے ہیں یا اس کے لیے الگ سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نیک کام ہی کبیرہ گناہوں کو بھی ختم کردیتے ہیں اس لیے کہ جو آدمی نیک اعمال کرتا ہے وہ یقینا اپنے گناہ پر نادم ہوتا ہے اور ندامت خود توبہ ہے اور اس کا نیک اعمال کرنا بھی توبہ کا ایک طریقہ ہے۔
۷۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدہ کے ساتھ حسن سلوک بھی ان اعمال میں سے ہے جو کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
۸۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان: لَا أَعْلَمُ ....سے ان کی تواضع اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا: کوئی عمل اس سے بڑھ کر نہیں بلکہ یوں کہا کہ میرے علم میں کوئی عمل ایسا نہیں۔ اسے علماء کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے اور دعویٰ کمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔
تخریج :
صحیح، الصحیحة: ۲۷۹۹۔
۱۔ غیرت انسان کی فطرت میں شامل ہے اور بسااوقات یہ ممدوح ہوتی ہے جس طرح آدمی کا اپنا اہل و عیال پر غیرت کرنا، اور اگر نہ کرے تو وہ دیوث ہوجاتا ہے لیکن بسااوقات مذموم اور قابل سزا ہوتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ذکر کیاگیا ہے، اس لیے کہ عورت کواختیار ہے کہ جس کا چاہے پیغامِ نکاح قبول کرے اور جس کا چاہے ردّ کردے اور ایسا بغیر وجہ کے بھی کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ اس حدیث سے غیرت کے خطرناک نتائج کا بھی علم ہوتا ہے کہ یہ انسان کو غیبت، حسد، کینہ اور بغض جیسے گناہوں میں ملوث کردیتی ہے حتی کہ انسان قتل جیسا قبیح فعل بھی کر بیٹھتا ہے۔
۳۔ قتل گناہ کبیرہ ہے لیکن اگر کسی انسان سے سرزد ہوجائے تو اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اگر وہ سچے دل سے توبہ کرنا چاہتا ہے۔ اور توبہ کا مطلب یہ ہے وہ اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ ہو لیکن یاد رہے کہ دیت بہر صورت ادا کرنا پڑے گی الاَّ یہ کہ ورثاء معاف کردیں۔
۴۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ بھی ہوجائے تو اللہ سے ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ فوراً معافی مانگ لینی چاہیے، اللہ اپنی بے پایاں رحمت سے معاف فرمادے گا۔
۵۔ عالم کو چاہیے کہ سائل کو کبھی مایوس نہ کرے بلکہ اسے توبہ کا بہترین رستہ بتائے اور کسی ایسے عمل کی طرف رہنمائی کرے جو اس کے اس گناہ کا کفارہ بن جائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ناامید ہوگیا تو ممکن ہے وہ مزید سرکشی اور گناہ میں مبتلا ہوجائے جیسا کہ بنی اسرائیل کے سو آدمیوں کے قاتل کا واقعہ ہے کہ ننانوے قتل کرکے جب اس نے کسی آدمی سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: تیری کوئی توبہ نہیں۔ تو اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ (بخاری)
۶۔ اعمال صالحہ گناہوں کو ختم کردیتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ﴾
لیکن علماء میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ کبیرہ گناہ بھی ختم ہوجاتے ہیں یا اس کے لیے الگ سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نیک کام ہی کبیرہ گناہوں کو بھی ختم کردیتے ہیں اس لیے کہ جو آدمی نیک اعمال کرتا ہے وہ یقینا اپنے گناہ پر نادم ہوتا ہے اور ندامت خود توبہ ہے اور اس کا نیک اعمال کرنا بھی توبہ کا ایک طریقہ ہے۔
۷۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدہ کے ساتھ حسن سلوک بھی ان اعمال میں سے ہے جو کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
۸۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان: لَا أَعْلَمُ ....سے ان کی تواضع اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا: کوئی عمل اس سے بڑھ کر نہیں بلکہ یوں کہا کہ میرے علم میں کوئی عمل ایسا نہیں۔ اسے علماء کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے اور دعویٰ کمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔